’بطور چیف جسٹس کیے گئے وعدوں پر کتنا عمل کیا، یہ قوم پر چھوڑتا ہوں‘
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ’بطور چیف جسٹس میں نے کچھ وعدے کیے تھے اور ان وعدوں پر میں نے کتنا عمل کیا، یہ میں قوم پر چھوڑتا ہوں‘۔
لاہور میں سمز میڈیکل کالج کے کانووکیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے فرائض کی ادائیگی ایمانداری سے کی اور اپنے دور میں کوشش کی کہ ملک ترقی کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم کی خدمت کے لیے 3 گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا ہوں، لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے، چیف جسٹس ثاقب نثار
ان کا کہنا تھا کہ ایمانداری کو میں نے ہمیشہ نصب العین بنایا، میرا مقصد ہمیشہ خلوص پر مبنی رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سب سےاعلیٰ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کا وارڈ ہی نہیں تھا، اور اس میں کئی اسامیاں بھی خالی پڑی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کے جائز مطالبات منظور کرائے ہیں۔
میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے والے طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 8 سال کی عمر میں اپنی والدہ کو تانگے پر ہسپتال لے جاتا تھا اور کونسا ایسا ڈاکٹر ہے جس کے پاس والدہ کو لے کر نہیں گیا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات
ان کا کہنا تھا کہ والدہ کی تکلیف دیکھ کر لوگوں کی پریشانی کا اندازہ ہوا، اور لوگوں سے محبت ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نجی کالجز میں بدقسمتی سے خدمت کرنے والے ڈاکٹر نہیں نکل رہے، میں نے بزنس ہاؤسز بننے والے نجی ہسپتالوں کی اصلاح کی کوشش کی اور کروڑوں روپے لے کر نجی ہسپتالوں کا الحاق کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نجی ہسپتالوں سے 72 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد فیس طلبہ کو واپس دلوائی ہے۔
انہوں نے تقریب کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی اسپتال کی انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کی اور سوال کیا کہ کیا ہسپتالوں کے حالات بہتر کراکے میں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا؟
ان کا کہنا تھا کہ زمین پر موجود زندگی کسی اور سیارے پر میسر نہیں، جان و مال کا تحفظ ہر فرد کا بنیادی حق ہے، زندہ رہنے کے حق میں صحت کا شعبہ اہمیت کا حامل ہے اور میرا مشن تھا کہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کروں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قوموں نے تعلیم کی بنیاد پر ترقی کی ہے اور ڈاکٹرز نے مریضوں کی دیانتداری سے خدمت کی تو انہیں اجر ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیمز تعمیر کرنا ججوں کا کام نہیں، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
انہوں نے بتایا کہ پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ 21 ہزار روپے کا مقروض ہے، وسائل کم ہورہے ہیں اور آبادی بڑھ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور پنجاب میں صحت کے شعبے میں بہتری آئی ہے تاہم خبیر پختونخوا کا ہیلتھ سیکٹر بہتر نہیں ہوا، کے پی کے جو کرنا چاہ رہا تھا وہ نہیں ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ ذہنی امراض سے متعلق سہولتیں تسلی بخش نہیں، تعلیم کا جو حال ہے سب جانتے ہیں، عوامی مسائل پر از خود نوٹس لینا کیا اختیارات سے تجاوز کرنا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کی ری ہیبلی ٹیشن کے لیے لاہور میں 100 بستروں کا ہسپتال ہونا چاہیے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا پانی کی قلت کے معاملے پر بات کرنا غلط ہے؟ پنجاب کے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر کا مسئلہ دیکھنا کیا حدود سے تجاوز ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ پانی سے لے کر ادویات کی حد تک ہمیں بہتری کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔