پاکستان

جعلی اکاؤنٹ کیس: ملک ریاض پیر کو سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

بحریہ ٹاؤن نے 10 ارب 2 کروڑ رشوت کے عوض قیمتی اراضی حاصل کی اور اس رقم سے آصف زرداری نے فائدہ اٹھایا، جے آئی ٹی رپورٹ

اسلام آباد: بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک ملک ریاض حسین اور ان کے داماد زین ملک 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت میں 31 دسمبر بروز پیر کو سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوں گے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ از خود نوٹس کس کی سماعت کرے گا، خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے ملک ریاض اور ان کے داماد زین ملک کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

واضح رہے کہ ملک ریاض اور زین ملک کا نام سپریم کورٹ کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کے سلسلے میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری اداروں کو ناکارہ بنا کر کوڑیوں کے دام خریدا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ

اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے سرکاری اوربحریہ آئیکون کے منصوبے کے لیے باغ ابنِ قاسم اورپاکستان اسٹیل ملز کی زمین حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش میں 10 ارب 2 کروڑ روپے جعلی اکاؤنٹس میں جمع کروانے کا انکشاف سامنے آیا جس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں بحریہ ٹاؤن بھی شامل ہے جس نے کراچی میں منصوبوں کی تعمیر کے لیے رشوت کے ذریعے شہر کی قیمتی سرکاری اور نجی زمین حاصل کی۔

اسی طرح جے آئی ٹی رپورٹ میں عمیر ایسوسی ایٹس کے جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش میں معلوم ہوا کہ 17 جولائی 2014 سے یکم ستمبر 2014تک ایک ہی فرد امان اللہ میمن کی جانب سے جاری کردہ 40 چیکس کے ذریعے 3 کروڑ 19 لاکھ 50 ہزار روپے جمع کروائے گئے۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ای سی ایل میں شامل 172 افراد کی فہرست جاری

اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان اسٹیل ملز کی3 سو 62 ایکڑ زمین سمیت 5 سو 65 ایکڑ رقبے کی سرکاری زمین نجی ٹھیکیداروں کو غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی جس سے قومی خزانے کو 4 ارب 14 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔

اس بارے میں جب چیف ایگزیکٹو آفیسر بحریہ ٹاؤن، زین ملک سے اومنی گروپ کے جعلی اکاؤنٹ میں 10 ارب 2 کروڑ روپے جمع کروانے کے بارے میں پوچھا گیا تو جے آئی ٹی کو دیگر منصوبوں میں بھی اسی قسم کی مجرمانہ معاملات کا علم ہوا، جس میں بحریہ آئیکون، جو 102 منزلہ پاکستان کی سب سے بلند عمارت اور گیلیکسی کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ کی زمین پر زیر تعمیر ہے، اور باغ ابنِ قاسم کی قیمتی ترین زمین شامل ہے، ان کیسز میں زمین پر قبضہ اور منی لانڈرنگ بہت واضح ہے۔

زرداری کے فرنٹ مین

مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بحریہ آئیکون ٹاور باغ ابنِ قاسم سے متصل کلفٹن کوارٹرز کی 9 ہزار 4 سو 36 مربع فٹ زمین پر تعمیر کیا گیا، مذکورہ پلاٹس گیلیکسی کنسٹرکشن کے سلیم اختر کی ملکیت ہیں جو مبینہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا دستِ راست ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: 107 اکاؤنٹس سے 54 ارب کی ٹرانزیکشنز کا انکشاف

یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ سلیم شاہد ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں اور گیلیکسی کنسٹرکشن کی شیئرہولڈنگ ڈاکٹر ڈنشا ہوشینگ انکل سریا کو منتقل کردی گئی۔

بعدازاں بحریہ آئیکون ٹاور منصوبے کی تعمیر کے لیے بحریہ ٹاؤن اور گیلکسی کنسٹرکشن کے درمیان ایک مشترکہ معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں سرکاری زمین کو بھی دھوکہ دہی سے ان پلاٹس کا حصہ دکھایا گیا۔

جے آئی ٹی کے سامنے زین ملک نے اعتراف کیا کہ ڈاکٹر انکل سریا اور گیلکسی کنسٹرکشن کے درمیان ہونے والا معاہدہ محض ایک کاغذی کارروائی تھااس کے باوجود ڈاکٹر انکل سریا نے وزیراعلیٰ سندھ کو آئیکون ٹاور سے متصل فلاحی پلاٹ کی زمین کی الاٹمنٹ کے لیے 3 درخواستیں ارسال کیں۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ’334 افراد، 210 کمپنیاں مشکوک ٹرانزیکشنز میں ملوث‘

رپورٹ کے مطابق گیلکسی کنسٹرکشن کے لیے سرکاری زمین پر کیا جانے والا مبینہ قبضہ بورڈ آف ریونیو سندھ اور دیگر مقامی انتطامیہ کے اوپر ایک انتظامی کنٹرول کی نگرانی کے ذریعے کیا گیا۔

جس کے بعد گیلیکسی کنٹرکشن کو باغ ابنِ قاسم کی7 ہزار 9 سو مربع گز زمین سے بھی نواز دیا گیا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس دھوکہ دہی کے بعد بحریہ آئیکون ٹاور کی تعمیر کے لیے زمین کا رقبہ 9 ہزار 4 سو ایکڑ سے تجاوز کر کے دوگنا ہوگیا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اتنے وسیع پیمانے پر زمین پر قبضہ وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کے مختلف محکموں کے ساتھ مل کر کیا گیا جو اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک اس کا فائدہ کسی بااثرشخصیت کو نہ پہنچے یا اس کا مفاد نہ وابستہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی

رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ سندھ حکومت نے یہ اقدام ڈاکٹر انکل سریا کے لیےنہیں کیا، جنہیں بحریہ آئیکون کے سی ای او نے محض کاغذی کارروائی کے استعمال کیا۔

چناچہ جس زمین پر بحریہ ٹاؤن آئیکون زیرتعمیر ہے اس کی نشاندہی آصف علی زرداری کے ’بے نامی‘ کے طور پر ہوئی جو ان کے فرنٹ مین سلیم اختر کے نام پر گیلیکسی کنسٹرکشن کے ذریعے 1998 میں حاصل کی گئی۔

رپورٹ میں یہ بھی دعوی ٰ کیا گیا کہ آج بھی یہ زمین گیلکسی کنسٹرکشن کے ذریعے آصف علی زرداری کے موجودہ فرنٹ مین ڈاکٹر انکل سریا کے نام پر آصف علی زردری کے قبضے میں ہے۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کا مقدمہ درج ہوا تو اس کا بھی دفاع کر سکتا ہوں، زرداری

جے آئی ٹی رپورٹ کا خلاصہ کرتے ہوئے یہ لکھا گیا کہ بحریہ آئیکون منصوبے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر انکل سریا محض آصف علی زرداری کے فرنٹ مین ہیں اور یہ آصف زرداری ہی تھے جنہوں نے بحریہ ٹاؤن سے جعلی اکاؤنٹس میں 10 ارب2 کروڑ روپے کی رشوت سے فائدہ اٹھایا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ امنی گروپ کے علاوہ بھی آصف زرداری نے دیگر معاملات میں جعلی اکاؤنٹس سے فائدہ اٹھایا۔


یہ خبر 29 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔