دنیا

انڈونیشیا: سونامی کے بعد آتش فشاں پھٹنے کا خطرہ بڑھ گیا

آتش فشاں انک کراکاٹوا کا بڑا حصہ منہدم ہوگیا اور تمام پروازوں اور بحری جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی گئی۔

جکارتا: انڈونیشیا میں گزشتہ ہفتے آنے والے سونامی کے بعد آتش فشاں پھٹنے کا خطرہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے جس کے بعد علاقے کو خالی کراتے ہوئے تمام پروازوں اور بحری جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

انڈونیشیا میں گزشتہ ہفتے آنے والے سونامی کو جنم دینے والے آتش فشاں انک کراکاٹوا کا بڑا حصہ منہدم ہوگیا ہے جس کے بعد حکام نے نزدیکی جزائر کے لوگوں کو ساحل سے کم از کم ایک کلومیٹر دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔

ہفتہ کو آتش فشاں پھٹنے سے اس کے سمندر میں موجود حصے میں بڑی لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی اور ماہرین کے مطابق اسی کے سبب سونامی نے جنم لیا تھا۔

مزید پڑھیں: انڈونیشیا: آتش فشاں پھٹنے کے بعد سونامی سے تباہی، 281افراد ہلاک

سونامی کی دو سے تین میٹر بلند لہریں انک کراکاٹوا کے دونوں اطراف میں واقع انڈونیشین جزائر جاوا اور سماترا کے ساحلی علاقوں سے ٹکرائی تھیں۔

آتش فشاں کی مسلسل سرگرمی کے باعث انڈونیشی حکام نے جمعرات کو خطرے کا لیول ایک اور درجے بڑھا دیا ہے اور تمام پروازوں کو انک کراکاٹوا کے نزدیک پرواز سے روک دیا ہے۔

انڈونیشیا کے محکمہ ارضیات نے جزیرے کے ارد گرد پانچ کلومیٹر تک تمام پروازوں اور بحری جہازوں کے آمد و رفت پر پابندی لگادی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آتش فشاں اب تک پوری طرح نہیں پھٹا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر وہ پوری طرح پھٹا تو زیادہ شدید سونامی جنم لے سکتا ہے۔

تصاویر دیکھیں: انڈونیشیا میں سونامی سے تباہی

جاپان کے خلائی تحقیقاتی ادارے نے سیٹلائٹ کی مدد سے جمع کیے جانے والے ریڈار ڈیٹا کو تصاویر کی شکل دی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آتش فشاں پھٹنے کے بعد سے انک کراکاٹوا نامی جزیرے کے حجم میں نمایاں کمی آئی ہے۔

آتش فشاں کے اوپر موجود دھویں کے گہرے بادلوں کے باعث سیٹلائٹ کے ذریعے اس کی براہِ راست تصاویر لینا ممکن نہیں جس کے باعث سائنس دان ریڈار ڈیٹا کی مدد سے علاقے میں آنے والی جغرافیائی تبدیلیوں کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق نئے ڈیٹا سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آتش فشاں پھٹنے کے بعد جزیرے کا جنوب مغربی حصہ غائب ہوگیا ہے۔

برطانیہ کی شیفیلڈ یونیورسٹی سے منسلک ماہر ڈیو پیٹلے نے ایک خصوصی بلاگ میں لکھا کہ تازہ ترین ڈیٹا سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ آتش فشاں کا ایک حصہ منہدم ہونے کی وجہ سے ہی سونامی نے جنم لیا تھا۔

ہفتے کی شب آنے والی سونامی سے اب تک 430 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔

ڈیو پیٹلے کے مطابق سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ اس وقت آتش فشاں میں کیا ہو رہا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔

انڈونیشیا میں حکام نے خلیجِ سندا میں واقع جزائر پر رہنے والوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایک اور سونامی کے خطرے کے پیشِ نظر ساحلی پٹی سے کم از کم ایک کلومیٹر دور رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا: سونامی سے ہلاکتوں کی تعداد 373 ہوگئی

جاپانی خلائی ایجنسی کے ڈیٹا کے مطابق جزیرے کی جانب سے مسلسل ایک ہی طرح کی لہریں سمندر کی طرف بڑھتی دیکھی جاسکتی ہیں جس سے لگتا ہے کہ آتش فشاں کے زیرِ سمندر حصے سے اب بھی لاوا نکل رہا ہے۔

انک کراکاٹوا نامی یہ آتش فشاں انڈونیشیا کے بدنامِ زمانہ کراکاٹوا آتش فشاں کے پھٹنے کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا اور اسی لیے اسے مقامی زبان میں انک کراکاٹوا یعنی 'کراکاٹوا کا بچہ' کہا جاتا ہے۔

کراکاٹوا کا آتش فشاں 1883 میں پھٹا تھا اور اس کے پھٹنے سے پوری دنیا کے ماحول پر اثرات مرتب ہوئے تھے۔

انک کراکاٹوا پہلے پہل 1929 میں سمندر میں ایک چھوٹے جزیرے کی صورت میں برآمد ہوا تھا جس کے بعد سے اس کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔