دنیا

بنگلہ دیش: انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے 10 ہزار سے زائد کارکنان گرفتار

حسینہ واجد کو کامیاب کروانے کے لیے ہمارے کارکنوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کیے جارہے ہیں، حزب اختلاف

ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ رواں ہفتے ہونے والے انتخابات کے پیشِ نظر پولیس نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنےوالے ساڑھے 10 ہزار سے زائد کارکنان کو حراست میں لے لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جانب سے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو آزادانہ انتخابات کے انعقاد کی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے مذکورہ اعداد و شمار جاری کیے گئے، حالیہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر چوتھی بار حسینہ واجد کے وزیراعظم بننے کا امکان ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کایہ بھی کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں خوف وہراس کی فضا پھیلانے کی کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں انتخابات سے قبل صحافیوں پر حملہ، 10 زخمی

ا س سلسلے میں بنگلہ دیش کی سابق حکمران اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی جس کی سربراہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا 17 سال قید کی سزا کے باعث جیل میں ہیں ، کا کہنا تھا کہ اب تک 7 ہزار 21 کارکنان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

دوسری جانب اسلامی تنظیم جماعتِ اسلامی کا کہنا ہے کہ ساڑھے 3 ہزار سے زائد کارکنان کو گرفتار کیا جاچکا ہے، خیال رہے کہ جماعتِ اسلامی کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے لیکن اس سے وابستہ افراد آزاد حیثیت میں انتخابات میں الیکش لڑرہے ہیں۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل شفیق الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہر روزپورے ملک میں ہمارے 80 سے 90 کارکنان کو گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: انتخابات سے قبل اپوزیشن امیدواروں کی گرفتاریاں

اس حوالے سے پولیس ترجمان سہیل رانا نے گرفتار افراد کی تعداد کی تصدیق نہیں کی البتہ ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ کسی شخص کو بلاوجہ گرفتار نہیں کیا گیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے کسی فردکو اس وقت تک نشانہ نہیں بنایا جب تک اس نے خلافِ قانون کچھ نہ کیا ہو۔

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پارٹی کارکنان کے خلاف درج کیے جانے والے مقدمے مفروضوں کی بنیاد پر قائم اور الیکشن پر اثر انداز ہونے کے لیے ہیں تا کہ حسینہ واجد کی کامیابی کو یقینی بنایا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب سے انتخابی مہم کا آغاز ہو اہے کم از کم ایک سو 52 کارکنان پر حملے ہوئے اور سیکڑوں تصادم میں زخمی ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: خالدہ ضیاء کی رہائی کا فیصلہ معطل

خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی سول سوسائٹی اور دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے حسینہ واجد کی حکومت پر مخالفین کو خاموش کروانے اور سخت ڈیجیٹل سیکیورٹی کے قانون کے ذریعے آزادی صحافت پر قدغن عائد کرنے کا الزام بھی لگایا جارہا ہے۔