پاکستان

سپریم کورٹ نے زلفی بخاری کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد کردی

معاون خصوصی کی تعیناتی وزیر اعظم کا اختیار ہے، زلفی بخاری آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں نہیں آتے، سپریم کورٹ
|

سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی زلفی بخاری کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زلفی بخاری کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت زلفی بخاری کی جانب سے معروف وکیل اعتزاز احسن پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار کے طرف سے وکیل ظفر اقبال کلانوری نے دلائل دیے۔

مزید پڑھیں: زلفی بخاری کیس: ’بڑے عہدوں پر تقرر اہم فریضہ، دوستی پر معاملات نہیں چلیں گے‘

ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ زلفی بخاری کو وزیر مملکت کا عہدہ دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کاسرکاری ملازمین کی دہری شہریت سے متعلق فیصلہ بھی زلفی بخاری پر لاگو ہوتا ہے۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا سرکاری ملازمین کی دہری شہریت کا فیصلہ زلفی بخاری پر لاگو نہیں ہوتا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس فیصلے میں پابندی نہیں لگائی، آپ نے فیصلہ غور سے نہیں پڑھا، ہم نے پارلیمنٹ کو تجاویز دی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بہت قدر کرتے ہیں، انہوں نے ڈیمز فنڈ میں حصہ لیا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ کو زلفی بخاری کی تعیناتی کے خلاف رولز آف بزنس کو چیلنج کرنا چاہیے تھا۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معاون خصوصی کی تعیناتی وزیر اعظم کا اختیار ہے، زلفی بخاری آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں نہیں آتے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاون خصوصی کی تعیناتی کا فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہے، حکومت چلانا وزیراعظم کا کام ہے، جس پر ظفر کلانوری نے دلائل دیے کہ زلفی بخاری دیگر ممالک سے معاہدے کر رہے ہیں، یہ کام وزیر کے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اعتزاز احسن سے پوچھ لیں گے کہ زلفی بخاری وزیر ہیں یا نہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے معاون خصوصی کی کیا اہلیت ہونی چاہیے؟جس پر ظفر اقبال کلانوری نے جواب دیا کہ قانون نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے معاون خصوصی کی کوئی اہلیت مقرر نہیں۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر یہ وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ زلفی بخاری بطور وزیر کام کر رہے ہیں اور کابینہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اعتراض ہمیں اسٹرائیک کر رہا ہے، ہم زلفی بخاری کو آپ کی استدعا کے مطابق نکال نہیں سکتے، پارلیمنٹ کو اس پر تجاویز دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زلفی بخاری کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ انہیں کہاں سے وزیر بنایا گیا، پوری سمری لائیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ زلفی بخاری نے اپنی ویب سائٹ پر کیسے وزیر مملکت کا عہدہ لکھ دیا؟ جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ زلفی بخاری نے وزیر مملک کا دعویٰ نہیں کیا، زلفی بخاری کی وجہ سے برٹش ایئر ویز دوبارہ پاکستان میں آئی۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا تو یہ ہوتا کہ آپ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو بہتر بناتے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی تقرری چیلنج

چیف جسٹس نے پوچھا کہ زلفی بخاری کی اہلیت بتائیں، نئے پاکستان میں جید لوگ ہونے چاہئیں، اگر وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وزیراعظم جس طرح مرضی کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے وہ سمری دکھا دیں کہ کیسے وزیراعظم کو سمری بھیجی گئی، کیسے زلفی بخاری معاون خصوصی بنے۔

اس موقع پر عدالت نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کردیا، بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے زلفی بخاری کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر انہوں نے وزیر کی حیثیت سے کام کیا یا اختیارات سے تجاوز کیا تو پھر اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔

خیال رہے کہ 18 ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے قریبی دوست ذوالفقار حسین بخاری عرف زلفی بخاری کو اپنا معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی مقرر کیا تھا، تاہم بعد ازاں اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا۔