دنیا

شام سے امریکی فوج کے متنازع انخلا کی دستاویز پر دستخط

دستاویز پر دستخط سے قبل ترکی اور امریکا نے فوجی انخلا سے طاقت کے توازن میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے پر اتفاق کیا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک ہم منصب کی جانب سے طاقت کے توازن میں پیدا ہونے والے خلا کو پرُ کرنے پر اتفاق کے بعد شام سے امریکی فوج کے انخلا کی احکاماتی دستاویز پر دستخط کرلیے گئے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی فوج کے ترجمان نے انخلا سے متعلق احکامات کے سوال پر کہا کہ ’ شام سے انخلا کی دستاویز پر دستخط کرلیے گئے ہیں‘۔

خیال رہے کہ خانہ جنگی کا سامنا کرنے والے ملک شام سے امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے اعلان سے بیک وقت عالمی شراکت داروں اور امریکی سیاستدانوں کو شدید دھچکا لگا۔

تاہم ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے شام میں داعش کے خلاف جنگ کی سربراہی کا اعلان کیا تھا۔

ترک صدر کے بیان کے مطابق ’ ڈونلڈ ٹرمپ اور رجب طیب اردوان نے گزشتہ روز ٹیلیفونک گفتگو میں دونوں ممالک ترکی اور امریکا کے فوجی، سفارتی اور دیگر عہدیداران کے درمیان تعاون کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا تاکہ شام سے فوجی انخلا سے طاقت کا خلا پید اہونے سے روکا جاسکے‘۔

مزید پڑھیں : ’ٹرمپ نے طیب اردوان سے رابطے کے بعد شام سے فوج کے انخلا کا اعلان کیا‘

جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ترک صدر نے انہیں شام سے داعش جنگجوؤں کے خاتمے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

امریکی صدر نے رجب طیب اردوان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’ اردوان ہی وہ شخص ہیں جو ایسا کرسکتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے فوجی دستے گھر واپس آرہے ہیں‘۔

چند گھنٹے قبل امریکی صدر نے ٹوئٹ کیا تھا کہ دونوں صدور کے درمیان داعش، شام میں مشترکہ مداخلت اور اس علاقے سے امریکی فوج کے انخلا پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں : امریکی صدر نے سیکریٹری دفاع کیلئے ’مستعفی جم مٹس‘ کے نائب کو نامزد کردیا

کرد تجزیہ کار موتلو سوی روگلو کا کہنا تھا کہ ’شام سے امریکی فوج کا انخلا ترکی کےلیے کُردوں کے خلاف آپریشن کا راستہ صاف ہوجائے جس کے بعد ایک خونی جنگ کا آغاز ہوگا‘۔

ری پبلکن اراکین سمیت امریکی سیاست دانوں اور بین الاقوامی اتحادیوں کو خوف ہے کہ شام سے امریکا کے 2 ہزار فوجیوں کا انخلا قبل از وقت ہے جو تباہ حال علاقے کو مزید غیر مستحکم کرے گا۔

فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر شدید دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ اتحادی کو لازمی قابل بھروسہ ہونا چاہیے‘۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر کو شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے شام میں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ کو شکست دے دی۔

تاہم امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے سے اختلاف کو وجہ قرار دیتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس حوالے سے جم میٹس نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ ’آپ کو سیکریٹری دفاع مقرر کرنے کا حق ہے جس کے خیالات آپ کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہوں‘۔

جس کے اگلے روز امریکا کے نائب وزیر خارجہ بریٹ میک گروک نے بھی امریکی فوجیوں کی واپسی کے فیصلے پر اختلاف کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے تھے۔

استعفیٰ میں بریٹ میک گروک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’شام میں داعش کو شکست نہیں ہوئی، ابھی جنگ جاری ہے‘۔

گزشتہ روز امریکی صدر نے مستعفی سیکریٹری دفاع جم میٹس کے عہدے پر اُن ہی کے نائب پیٹرک شنیہن کو نامزد کرتے ہوئے کہا کہ ’بطور نائب سیکریٹری دفاع پیٹرک کی کامیابیوں کا سلسلہ طویل ہے‘۔

اسی دوران ڈونلڈٹرمپ نے فروری کا انتظار کرنے کے بجائے تمام انتظامی مراحل کو فوری طے پایا جس کی بڑی وجہ یہ بتائی گی کہ ڈونلڈٹرمپ میڈیا پر استعفیٰ سے متعلق خبروں کی نشریات سے سخت ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔