نقطہ نظر

پاکستانی کھلاڑیوں کی وہ زبردست کتابیں جو اب تک نہیں لکھی گئیں

ان کھلاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے لیے اعزازات جیتے ہیں اور جن سے کھیل کے دنوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے

پاکستان نے بڑی تعداد میں ایسے کھلاڑی پیدا کیے ہیں جنہوں نے لاتعداد مواقعوں پر ملک کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔ مگر ان میں سے بہت کم ہی اپنے شاندار کیریئرز کو کتاب کے صفحات پر منتقل کرپائے ہیں۔ حنیف محمد، ظہیر عباس، عمران خان، جاوید میاں داد، فضل محمود، اصلاح الدین، وسیم اکرم اور مشتاق محمد وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنی خود نوشتیں لکھی ہیں۔ آئیں کچھ دیگر کھلاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے لیے اعزازات جیتے ہیں اور جن سے کھیل کے دنوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔

ذیل میں ان کھلاڑیوں کی فہرست اور ان کی کتابوں کے ممکنہ عنوانات اور وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انہیں کتابیں ضرور لکھنی چاہیئں۔


سمیع اللہ

ٹائٹل: دی فلائنگ ہارس

کامیابیاں: پاکستان کے لیے ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی سمیت بڑے ایونٹس میں میڈلز جیتے۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: ہاکی کے پرستار یہ جاننا چاہیں گے کہ سمیع اللہ کس طرح 'فلائنگ ہارس' بن پائے؟ انہیں بحیثیت کھلاڑی اور بعد میں بحیثیت کپتان اپنا پہلا اور آخری ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد کیسا لگا اور کیوں وہ اپنے کیریئر کے نکتہءِ عروج پر کھیل کو خیرباد کہہ گئے۔

سابق کپتان 1984ء میں لاس اینجلس اولمپکس میں بحیثیت مبصر شامل تھے جب پاکستان نے گولڈ میڈل جیتا، وہ واحد میڈل جو وہ اپنے کیریئر میں حاصل نہیں کرسکے۔

مزید پڑھیے: قومی ہاکی کا عروج اور گوجرہ سے تاریخی ملاپ

وہ اپنی کچھ یادگار کارکردگیوں بشمول روایتی حریف ہندوستان کے خلاف میچوں کو یاد کرسکتے ہیں۔


جہانگیر خان

ٹائٹل: لائف آف اے چیمپیئن

کامیابیاں: لگاتار 555 میچ جیتنے والے واحد کھلاڑی جنہوں نے دیگر لاتعداد ٹرافیوں کے علاوہ 6 مرتبہ ورلڈ اوپن ٹائٹل اور برٹش اوپن ٹائٹل لگاتار 10 مرتبہ جیتا۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: وہ نوجوانی میں اپنے خاندان کے سب سے فٹ کھلاڑی نہیں تھے مگر وہ اسکواش کے کامیاب ترین کھلاڑی بنے اور کسی بھی دوسرے کھلاڑی سے زیادہ ٹائٹل جیتے۔

ایک وقت تھا جب انہوں نے اسکواش کورٹ میں اپنے بڑے بھائی تورسم کی ہلاکت کے بعد کھیل چھوڑ دینے کے بارے میں بھی سوچا۔ پھر ان کے کزن رحمت خان نے اپنے کیریئر کی قربانی دی تاکہ جہانگیر کو لیجنڈ بنایا جاسکے۔

وہ اسکول میں کیسے تھے، انہیں 555 میچ جیتنے کے بعد پہلا میچ ہار کر کیسا لگا، ان کے اپنے چیمپیئن والد اور پسندیدہ حریف روشن خان کے ساتھ کیسے تعلقات تھے، جان شیر خان کے خلاف کھیلتے ہوئے ان کے جذبات اور کھیل چھوڑنے سے قبل آخری ٹورنامنٹ کے بارے میں ان کی یادداشتیں لوگوں کے لیے بہت دلچسپی کا باعث ہوں گی۔


شہباز احمد سینئر

ٹائٹل: دی مین ود دی گولڈن اسٹک

کامیابیاں: پاکستان ہاکی کے پیدا کردہ آخری لیجنڈز میں سے ایک، جنہوں نے پاکستان کو 1994ء کے ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی سمیت کئی ٹورنامنٹس میں فتح دلوائی۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: شہباز احمد کی بطور کھلاڑی کامیابیوں نے پاکستان کو 1990ء کے ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے میں مدد دی۔ مگر انہیں کیسا لگا جب قاضی محب نے ایک اہم پینالٹی اسٹروک گنوا دیا اور پاکستان وہ ٹائٹل حاصل نہیں کرسکا۔ اس بارے میں انہوں نے خود کبھی کوئی بات نہیں کی ہے۔

قارئین شہباز کے کیریئر کے بارے میں پڑھنا چاہیں گے انہوں نے خود گول کرنے سے زیادہ گول کرنے میں زیادہ مدد کیوں دی۔ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر انہوں نے 1996ء میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خلاف بغاوت کی؟ اور اس کے علاوہ 1994ء کے ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی جنہیں پاکستان نے جیتا اس کے بارے میں کپتان کے تاثرات کے بارے میں جاننا بھی دلچسپی کا باعث ہوگا۔


سید حسین شاہ

ٹائٹل: مائے لائف، مائے رولز!

کامیابیاں: اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے پہلے اور اب تک کے واحد پاکستانی باکسر۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: ایک بے گھر بچے سے لے کر ایک کچرہ چننے والے تک، حسین شاہ نے کچرے کے تھیلوں کو پنچنگ بیگ کے طور پر استعمال کرکے خود کو تربیت دی۔ اور یہ کہانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ انہوں نے بغیر جوتوں کے کس طرح اپنے ابتدائی میچ کھیلے اور کس طرح وہ ایشیا کے بہترین باکسروں میں سے ایک بنے، قارئین یقیناً یہ سب جاننا چاہیں گے۔ ان کا اولمپک کا سفر اور دنیا کے بہترین باکسروں کے خلاف ان کے میچز کا احوال قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا اور ان کی جاپان منتقلی کی وجوہات بھی، جہاں اب وہ باکسروں کو تربیت دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: 2019ء کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے انگلینڈ چلنے کا موڈ ہے؟


وقار یونس

ٹائٹل: دی فاسٹ اینڈ دی فیورئیس

کامیابیاں: وہ 1990ء کی دہائی کے تیز ترین فاسٹ باؤلر تھے۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: بورے والا ایکسپریس کہلوانے والے وقار یونس نے کبھی بھی 1992ء کا ورلڈ کپ انجری کے باعث نہ کھیل پانے کے بارے میں بات نہیں کی، اور نہ ہی 11 سال بعد پاکستان کو ایک ناقابلِ فراموش میگا ایونٹ تک پہنچانے کے بارے میں۔

اس سب کو کتاب کے بارے میں لکھنے کے علاوہ یہ بھی بہتر ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کھیل 32 سال کی عمر میں کیوں چھوڑا اور یہ بھی کہ بنگلور میں 1996ء میں کوارٹر فائنل کے دوران ان پر کیا گزری جب انہیں اجے جدیجا نے تہس نہس کردیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ کئی ناقابلِ یقین فتوحات کی روئیداد بھی سنا سکتے ہیں۔

اب وہ ایک کامیاب کرکٹ کمنٹیٹر ہیں مگر 2 مرتبہ پاکستان کے کوچ بھی رہ چکے ہیں، اور اس کے بارے میں وہ اپنی یادداشتوں میں کھلے انداز میں لکھ سکتے ہیں۔


انضمام الحق

ٹائٹل: واک لائک اے جائنٹ

کامیابیاں: اپنے دور کے کامیاب ترین بلے بازوں میں سے ایک انضمام 1992ء کے ورلڈ کپ کے اسٹار کھلاریوں میں سے تھے جنہوں نے 35 سنچریوں کی مدد سے پاکستان کے لیے 20 ہزار انٹرنیشنل رن بنائے اور پاکستان کے لیے تقریباً 200 کیچز حاصل کیے۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: امام الحق کے چچا کہلوانے سے قبل انضمام ایک عالمی سطح کے بلے باز تھے۔ اپنی یادداشت میں وہ اپنے کیریئر کے کئی یادگار لمحات کے بارے میں لکھ سکتے ہیں مثلاً 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنا یا پھر اوول گیٹ کا موقع جب انہوں نے امپائر کی جانب سے اپنے باؤلرز پر پینالٹی عائد ہونے کے بعد میدان میں اترنے سے انکار کردیا۔

لوگ یہ جاننا چاہیں گے کہ انہیں 2007ء کے تباہ کن ورلڈ کپ کے دوران کیسا محسوس ہوا جب کوچ باب وولمر کی جان چلی گئی یا پھر جب وہ صحارا کپ کے دوران ایک میچ میں قابو کھو بیٹھے اور زیڈان کی جانب سر مارنے سے کافی پہلے ایک تماشائی کو پیٹا تھا۔

'حریف' انڈین کرکٹ لیگ میں افغانستان کے کوچ اور پھر پاکستان کے چیف سلیکٹر کے طور پر کھیلنا بھی تنازعات سے پاک نہیں رہا ہے اور وہ ان لمحات کے بارے میں اپنا مؤقف پیش کرسکتے ہیں۔


شاہد آفریدی

ٹائٹل: بوم بوم — ان سینسرڈ

کامیابیاں: تیز ترین ون ڈے سنچری، 2009ء کا ورلڈ ٹی 20 ٹورنامنٹ اور دیگر لاتعداد میچ جب انہوں نے تنِ تنہا شکست کے جبڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: انہوں نے اپنی ٹیم کے لیے کئی میچ جیتے ہوں گے مگر شاہد آفریدی نے ون ڈے میچ کے درمیان ایک گیند چبا کر اپنے کئی ہم وطنوں کو شرمندہ کیا۔

لوگ یہ جاننا چاہیں گے کہ انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں کیوں پچ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، کیوں انہوں نے 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ کے معاملے سے قبل ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ دیا اور 2009ء کے ورلڈ ٹی 20 ٹورنامنٹ میں 'بوم بوم' کہلوانے پر ان کا ردِعمل کیا تھا۔

میچوں میں لاپرواہ شاٹس سے لے کر ساتھیوں سے لڑائی تک شاہد آفریدی نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور اگر یہ کتاب لکھی جائے تو بہت کچھ لوگوں کے سامنے لا سکتی ہے۔


یونس خان

ٹائٹل: اگینسٹ آل آڈز

کامیابیاں: ورلڈ ٹی 20 جیتنے والی ٹیم کا کپتان ہونا، ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز اسکور کرنا، 40 بین الاقوامی سنچریاں اور پاکستان کے لیے 250 کیچز سمیت دنیا کے بہترین چوتھی اننگز کے بلے باز ہونے کا اعزاز۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: یونس خان ان کھلاریوں میں سے ایک ہیں جن کے کیریئر پر ایک فلم بن سکتی ہے۔ کرکٹ میں ان کی شروعات ویسی تھی جیسی ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے، پھر انہوں نے ٹرپل سنچری بنائی اور پھر پاکستان کے لیے 34 ٹیسٹ سنچریاں بنائیں۔ انہوں نے پاکستان کو بحیثیتِ کپتان ورلڈ ٹی 20 جتوایا اور پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ کھلاڑی ان کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

ان کے پرستار جاننا چاہیں گے کہ ان کی فٹنس کا کیا راز ہے اور انہیں جاوید میانداد کا ریکارڈ توڑنے اور پھر 10 ہزار رنز کی حد عبور کرنے پر کیسا لگا، اور یہ کہ وہ باب وولمر کے کتنا قریب تھے جنہیں انہوں نے خود کے ساتھ ہونے والی بہترین چیز قرار دیا ہے۔


مصباح الحق

ٹائٹل: اینڈ دین دیئر واز مصباح

کامیابیاں: پاکستان کو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن تک لائے، مشترکہ تیز ترین ٹیسٹ سنچری بنائی اور ون ڈے میں سنچری کے بغیر سب سے زیادہ رنز بنائے۔

قارئین کیا جاننا چاہتے ہیں: پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ مصباح الحق کے تذکرے کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوگی جو کہ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ فتوحات دلوانے والے کپتان ہیں۔

انہوں نے ایم بی اے کرنے کے بعد کھیلنا کیوں شروع کیا، انضمام الحق کے کیریئر کے دوران باہر بٹھائے جانے پر کیسا محسوس ہوا اور 2010ء میں انگلستان کے تباہ کن دورے سے ڈراپ کردیے جانے کے باوجود کیسے اپنی توجہ برقرار رکھ پائے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستان اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے کامیاب ترین کھلاڑی سے ان کے پرستار جاننا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: آپ مصباح الحق کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟

ایشیا کپ کی فتح، پش اپس کے ذریعے خراجِ تحسین اور دیگر کئی ٹیسٹ فتوحات اس کتاب کو لکھے جانے پر ایک یادگار کتاب بنا دیں گی۔


انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 دسمبر 2018 کو شائع ہوا۔

عمیر علوی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔