نواز شریف کی گرفتاری کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کا عوام میں جانے کا فیصلہ
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) نے پارٹی قائد نواز شریف کی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر آئندہ کی حکمت عملی تیار کرلی اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا۔
سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی سربراہی میں پارلیمنٹ کے اپوزیشن چیمبر میں ہونے والے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہبازشریف، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور رکنِ صوبائی اسمبلی حمزہ شہباز شریک تھے۔
علاوہ ازیں احسن اقبال، رانا تنویر، آصف کرمانی، عبد القادر بلوچ سمیت مریم اورنگزیب بھی اجلاس کا حصہ تھیں۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی گرفتاری ہوئی تو مسلم لیگ (ن) سخت موقف اپنائے گی۔
مزید پڑھیں: کرپشن میرے قریب سے نہیں گزری، نواز شریف
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ احتساب عدالت سے نواز شریف کو سزا کی صورت میں سینئر رہنما عوامی رابطہ مہم چلائیں گے، جس کے لیے کمیٹی بنانے کی تجویز بھی پش کی گئی۔
مسلم لیگی بیٹھک کے دوران یہ بھی فیصلہ کیا کہ عوامی رابطہ مہم کا آغاز 30 دسمبر کو لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے یوم تاسیس کی مناسبت سے منعقد تقریب سے کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف کو سزا نہیں ہوئی تو وہ یومِ تاسیس سے خطاب بھی کریں گے اور سزا کی صورت میں خطاب دیگر رہنما کریں گے۔
اس کے علاوہ اجلاس میں پارٹی رہنماؤں نے حکومت کو پارلیمنٹ میں بھی ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس پر فیصلہ محفوظ
خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔
مسلم لیگ کو پارلیمنٹ کے کمیٹی روم میں اجلاس کی اجازت نہیں مل سکی
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مسلم لیگ (ن) کو کمیٹی روم نمبر 2 میں پارٹی کا اجلاس کروانے سے روک دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کمیٹی روم نمبر 2 میں اجلاس منعقد کیا تھا جس کی سربراہی نواز شریف نے کرنی تھی جبکہ شہباز شریف نے بھی اس میں شرکت کرنی تھی۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) کو اجلاس کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف ضمانت پر ہیں اور شہباز شریف پر نیب مقدمات ہیں لہٰذا ان دونوں قائدین کو پارلیمنٹ کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے۔
مسلم لیگ (ن) نے بعد میں اس اجلاس کو اپوزیشن چیمبر میں منتقل کیا جہاں نواز شریف نے اجلاس کی صدارت کی۔