دنیا

’امریکا کا فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے پر غور‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے رجب طیب اردوان سے کہا کہ وہ فتح اللہ گولن اور دیگر کی حوالگی پر کام کررہے ہیں، ترک وزیر خارجہ کا دعویٰ

دوحا: ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ترکی کے ہم منصب رجب طیب اردوان کو بتایا ہے کہ امریکا اپنے ملک میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی حوالگی پر غور کر رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولو چاﺅش اوگلو نے دو ہفتے قبل ہونے والے جی 20 اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ارجنٹینا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے رجب طیب اردوان کو کہا کہ وہ فتح اللہ گولن اور دیگر افراد کی حوالگی پر کام کررہا‘۔

واضح رہے کہ ترک حکومت ایک طویل عرصے سے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا منصوبہ بنانے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کر رہی ہے، جو تقریباً 2 دہائیوں سے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرکے امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا میں فتح اللہ گولن کے اغوا کا ترک منصوبہ؟

ترک انتظامیہ کی جانب سے الزام لگایا جاتا ہے کہ رجب طیب اردوان کے سابق اتحادی فتح اللہ گولن نے اس وقت ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کی جب باغی فوجیوں نے ٹینکس اور ہیلی کاپٹرز کو استعمال کیا اور پارلیمنٹ اور غیر مسلح افراد پر حملہ کیا، تاہم فتح اللہ گولن اس ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام مسترد کرچکے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر سعودی عرب پر ترکی کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر مبلغ کو منتقل کرنے پر غور نہیں کررہے۔

ادھر نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ آخری مرتبہ جب بیونس ایئربیس میں ملاقات ہوئی تھی تو امریکی صدر نے رجب طیب اردوان کو کہا تھا کہ وہ اس معاملےپر کام کر رہے ہیں لیکن ہم ٹھوس اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اس معاملے کو دو سال بلکہ تقریباً 3 سال ہوچکے ہیں‘۔

اس معاملے پر جب امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے تبصرہ کرنے کو کہا تو انہوں نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا۔

ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن کی حوالگی کی درخواست پر ’ٹھوس اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں‘، ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکی نے امریکا میں مقیم 80 سے زائد فتح اللہ گولن کے پیروکاروں کی حوالگی کی بھی درخواست کی تھی۔

میولو چاؤلش اوگلو کا کہنا تھا کہ ’ہماری توقعات بہت واضح ہیں، ہمارے درمیان دو طرفہ معاہدہ ہے اور وہاں بین الاقوامی قوانین موجود ہیں‘۔

یاد رہے کہ ترکی میں 15 جولائی 2016 کی رات فوج کے ایک باغی گروپ کی جانب سے ملک میں بغاوت کی ناکام کوشش کی گئی تھی، اس ناکام کوشش کے دوران جھڑپوں میں 246 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی: فتح اللہ گولن سے تعلق کا الزام، 6 صحافیوں کو قید کی سزا

ترکی نے اس بغاوت کا الزام امریکا میں خودساختہ جلاوطنی کاٹنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کیا تھا، تاہم گولن نے ان الزامات کی سختی سے تردید کردی تھی۔

واضح رہے کہ فتح اللہ گولن، ترک صدر رجب طیب اردگان کے سیاسی حریف سمجھے جاتے ہیں اور ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی نے گولن کے اسکولوں کے نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

فتح اللہ گولن کی تحریک 'حزمت' کہلاتی ہے، جو صوفی ازم کی طرز پر مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تعلیم دیتی ہے، اس تحریک کے تحت امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں تعلیمی اور سماجی خدمات کے ادارے کام سرانجام دے رہے ہیں۔