دنیا

امریکا کے بعد آسٹریلیا نے بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا

اس فیصلے میں کچھ پانے کے بجائے صرف خطرہ ہے اور آسٹریلیا کے بین الاقوامی برادری میں تنہا رہ جانے کا امکان ہے, اپوزیشن

امریکا کے بعد ایک اور مغربی ملک آسٹریلیا نے بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا، تاہم امن معاہدہ ہونے تک اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم نہ منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اس بات کا اعلان آسٹریلوی وزیراعظم ’اسکاٹ موریسون ‘ نے کیا جس کے بعد آسٹریلیا دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوگیا جنہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیروی کرتے ہوئے متنازع علاقے کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔

تاہم آسٹریلوی وزیراعظم نے مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے پر رضا مندی ظاہر کی، واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

دوسری جانب امریکی صدر کی جانب سے امریکی سفارت خانہ یروشلم میں منتقل کرنے تک زیادہ ترمغربی اقوام نے شہر کی حتمی حیثیت کا فیصلہ کرنے والے مذاکرات میں کسی رکاوٹ سے بچنے کے لیے اپنا سفارت خانہ یہاں منتقل کرنے سے گریز کیا۔

آسٹریلوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حتمی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک ہم اپنا سفارت خانہ جنوبی یروشلم میں منتقل کرنے کا انتظار کریں گے، تاہم سفارت خانے کی نئی جگہ پر کام جاری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فی الحال عارضی بنیاد پر آسٹریلیا یروشلم کے جنوبی حصے میں دفاع اور تجارتی آفس منتقل کرے گا۔

علاوہ ازیں 2 ریاستی حل کو تسلیم کرنے کے عزم کے پیشِ نظر آسٹریلوی حکومت مشرقی یروشلم میں مستقبل کی ریاست کے لیے فلسطینی عوام کی خواہشات بھی تسلیم کرنے کی خواہاں ہیں۔

مزید پڑھیں: یروشلم اسرائیل کا ’دارالحکومت‘:’وجہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات ہیں‘

خیال رہےکہ اسکاٹ موریسون نے اکتوبر میں خارجہ پالیسی میں مذکورہ تبدیلی کرنے کاعندیہ دیا تھا جس نے اس کے ہمسائے اور دنیا کی سب سے بڑے مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کو مشتعل کردیا تھا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارتی معاہدے پر سالوں سے جاری مذاکرات میں رکاوٹ آگئی تھی۔

خیال رہے کہ آسٹریلوی وزیراعظم کا یہ اعلان انہیں آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں مہم کے سلسلے میں مدد کرسکتا ہے جس سے انہیں یہودی اور عیسائی ووٹ ملنے کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں دوست ملنے کا بھی امکان ہے۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی نے ’قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح ‘ دینے پر آسٹریلوی وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

ایک حکومتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کا سفارت خانہ تل ابیب میں رکھتے ہوئے جنوبی یروشلم کا اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا دوغلے پن سے زیادہ کچھ نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے میں کچھ پانے کے بجائے صرف خطرہ ہے, جس سے آسٹریلیا کے بین الاقوامی برادری میں تنہا رہ جانے کا امکان ہے۔