فیض احمد فیض پابند سلاسل تھے۔ شب و روز سلاخوں کے پیچھے گزرتے مگر عظیم شاعر کا تخلیقی ذہن کہاں قفس کی پرواہ کرتا ہے۔
دورانِ قید فیض صاحب کے دانت میں درد ہوا، سو انہوں نے دندان ساز کو دانت دکھانے کی عرضی دے دی۔ جواب ملا کہ انتظار کریں، گاڑی کا بندوبست نہیں۔ دانت کا درد کہاں کسی سے برداشت ہوتا ہے۔ فیض صاحب کی بھی فیاضی کا عالم دیکھیے کہ اپنی ذات سے جڑی شہرت، عزت اور مرتبے کے باوجود کہہ دیا کہ ڈسٹرکٹ جیل سے میو ہسپتال لاہور کا فاصلہ زیادہ نہیں لہٰذا تانگے پر ہی یہ مختصر سفر طے کیا جاسکتا ہے۔
ان کی بات مانی گئی اور جیل کے دروازے پر تانگہ آن کھڑا ہوا۔ تانگے کے پیچھے براجمان عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بندھی تھیں اور 2 پولیس اہلکار ہمراہ ہوئے۔
تانگے کی تاپوں اور ہتھکڑیوں کی ترنم کے ساتھ فیض صاحب ہسپتال کی طرف رواں دواں تھے۔ تھوڑا آگے چلے تو لوگ عوام کے دکھ درد کو اپنی ‘پہلی سی محبت’ پر برتری دینے والے شاعر کو پہنچان جاتے ہیں۔ اس انقلابی شاعر کو دیکھ کر تانگے کے پیچھے مجمع اکٹھا ہونے لگتا ہے اور فضا میں نعرے بلند ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔