رچرڈ برٹن: سندھ میں ایک بے چین روح
رچرڈ برٹن: ایک بے چین روح سندھ میں
اس دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کولہو کی بیل کی طرح ہوتے ہیں، تاحیات اپنے شب و روز ایک ہی طرز کے ساتھ گزار کر دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔
پھر ان اربوں کھربوں کی آبادی میں کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو کولہو کا بیل نہیں بننا چاہتے یا شاید اُن کی سرشت میں ہی ایک جگہ پر چکر لگانا اور شامل نہیں ہوتا۔
ان کی روحیں بے چین سمندر کی لہروں کی مانند کناروں پر پہنچنا چاہتی ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ لہر کے نصیبوں میں کنارے کا سُکھ تحریر ہی نہیں ہوتا، مگر لہر کے کنارے پر پہنچنے کے لیے مشقت روکے نہیں رکتی۔ ان چند گنے چُنے لوگوں کی بے چینی اُن کو کہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی اور ان عظیم روحوں کی بے چینی کو اگر مثبت تمناؤں کے پَر لگ جائیں تو وہ ہمارے لیے نئے جہان کھوج لاتی ہیں۔ یہ لوگ آنے والے وقتوں کے لیے تحریروں کی صورت میں ایک خزانہ چھوڑ جاتے ہیں، جس میں ہمارے پُرکھوں کی تاریخ، رسم و رواج، فصلیں، لباس، نہریں اور نہروں کے کنارے پر کھڑے کیکر کے پیڑوں کی چھاؤں اور کھیل کود کا تذکرہ شامل ہوتا ہے۔
آج کی نشست میں ہم ایسی ہی ایک بے چین روح کے ہمسفر بنیں گے کہ وہ اُن گزرگاہوں کا امین ہے جس کو ہم نہیں دیکھ پائے اور اگر یہ انسان پرانوں وقتوں کو قلمبند نہ کرتا تو ہم اپنے ماضی کی پگڈنڈیوں کے آثار کھودیتے۔
اگر آپ حیدرآباد سے ٹنڈو محمد خان جانے والا راستہ لیں تو فتح چوک سے مشرق کی طرف 6 کلومیٹر کی مصافت پر ایک راستہ نکلتا ہے جو آپ کو ’ہوسڑی‘ نامی قصبے تک لے جاتا ہے۔ میں جب اس شہر کے بیچوں بیچ گزر کر، مشرق کی طرف گونی پھلیلی نہر کے مغربی کنارے پر پہنچا تو تیز دھوپ کی وجہ سے وہاں کھڑے سفیدے اور نیم کے پیڑوں کی چھاؤں مجھے بھلی لگی۔
میرے سامنے گونی پھلیلی میں مٹیالا پانی بہتا اور زور و شور سے بہتا۔ یہ دریائے سندھ کا ایک قدیم بہاؤ ہے۔ کہتے ہیں کہ جب تیمور شاہ نے پیسے ملنے کی امید پر ایک ضدی کلہوڑے کے ساتھ، سندھ کی طرف مدد خان پٹھان کو بھیجا تھا کہ اس کو تالپوروں سے حکومت لے کر دے تو مدد خان نے بڑے ظلم کیے تھے۔
گونی کے کنارے جو درخت تھے وہ کٹوادیے اور جو آباد بستیاں تھیں اُن کو آگ لگادی گئی تھی اور اس طرح ایک زمانے تک گونی کے دونوں کناروں پر ویرانی اور اداسی نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔
میں جس زمانے کا ذکر کرنے جا رہا ہوں، ان وقتوں کے متعلق تاریخ بتاتی ہے کہ، ’حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ کا جو بہاؤ ہے، اس کی چوڑائی ڈیڑھ کلومیٹر ہے مگر حیدرآباد کے شمال اور جنوب میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے بہاؤ کی رفتار ایک گھنٹے میں 7 میل سے بھی زائد ہے۔‘
ان دنوں یعنی 175 برس پہلے 1845ء میں ’رچرڈ ایف برٹن‘ اسی شاندار بہاؤ سے یہاں آیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ، ’پھلیلی کے کنارے حیدرآباد سے 7 میل دُور ایک بڑا گاؤں ’ہوسڑی‘ ہے۔ یہ کوئی اچھا گاؤں نہیں ہے مگر ناشتہ کرنے کے لیے ہم یہاں رُکے۔ یہاں مسافروں کو ٹھہرانے کے لیے ’بنگلا‘ نامی ایک بڑی اور شاندار عمارت ہے، جس میں بڑی صندوق جتنے 2 کمرے اور برآمدہ ہے۔ اس عظیم عمارت میں ایک چودیواری بھی ہے جس کو ’کوٹ‘ کہتے ہیں۔ اس قسم کی تعمیر میں بے چینی اور بے آرامی کے سوا دوسری کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔ مشرق میں رہنے والے اکثر انگریز ایسی خاموش جگہوں پر آکر قیام کرتے ہیں۔‘