فرانس کے صدر سے کہاں غلطی ہوئی؟

پورے فرانس میں جاری پُرتشدد عوامی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جب اپنے چوتھے ہفتے میں داخل ہوا تو فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے پیر کے روز قوم سے خطاب میں اس بات کو تسلیم کیا کہ سڑکوں پر نظر آنے والا غصہ ’گہرا ہے اور کئی زاویوں سے درست بھی۔‘
انہوں نے تسلیم کیا کہ، کچھ ایسے ’لوگ ضرور ہیں جن کے درجے کو معاشرے میں پوری طرح سے تسلیم نہیں کیا گیا، دراصل ہم بڑے ہی بزدلانہ انداز میں اس کے عادی ہوچکے تھے، اور اب معاملات دیکھ کر محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے ہم انہیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔‘
موجودہ صورتحال میں اپنے کردار کی کچھ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ’ہوسکتا ہے کہ میں نے آپ کو تاثر دیا ہو کہ میری فکریں اور ترجیحات کچھ اور ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگوں کو میرے لفظوں سے ٹھیس بھی پہنچی ہوگی۔‘
غرور و تکبر چارلس ڈیگال سے لے کر فرانس کے موجودہ حکومتی نظام یعنی ففتھ ری پبلک کے تمام صدور کا خاصا ہے، (اور میکرون چارلس ڈیگال سے خاص عیقدت بھی رکھتے ہیں)۔ اس غرور و تکبر کی وجہ سے خود پر تنقید (self critisim) کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے۔ موجودہ صدر نے اپنے خطاب میں جہاں امن بحالی کے لیے ‘تمام طریقے‘ استعمال کرنے کا عزم کیا وہیں یہ شکوہ بھی کیا کہ مظاہرین نے فرانس کی آزادی کو خطرے میں ڈالا اور اس بات پر زور دیا کہ اب کوئی یوٹرن نہیں لیا جائے گا۔
پیر کے روز میکرون نے کم آمدن پینشنرز پر ٹیکس کے فیصلے کی منسوخی، اس کے علاوہ اگلے ماہ سے ماہانہ کم سے کم اجرت میں 100 یورو اضافے، ساتھ ہی ساتھ تمام ملازمین کو سال کے آخر میں ٹیکس فری بونس دینے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے قدم پیچھے کی طرف کیے۔ اسی موقعے پر، انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اس دولت پر ٹیکس کو دوبارہ بحال نہیں کریں گے جسے فرانسوا متران کی جانب سے متعارف کیے جانے کے کچھ 3 دہائیوں بعد منسوخ کیا گیا تھا۔
اگر آئندہ ہفتے مظاہروں میں اضافہ ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اس پر اپنا ذہن بدل لیں۔ اگرچہ وسط نومبر سے کسی حد تک مظاہرین کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گرفتاریوں کی تعداد میں زبردست اضافہ بھی ہوا ہے، اور ان میں سے کئی گرفتاریاں پیش بندی کے طور پر بھی کی گئی ہیں۔ گرفتار شدگان میں ہائی اسکول کے طلبہ بھی شامل ہیں جو نصابی تبدیلی سے شاکی ہیں۔
سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ مظاہروں اور ان میں کیے جانے والے مطالبوں (جن میں سے چند کو تسلیم بھی کرلیا گیا ہے) کو حاصل ہونے والی عوامی حمایت کی شرح 66 فیصد تک دیکھنے کو ملی، تاہم حال ہی میں محض چند فیصد کی ہی کمی واقع ہوئی ہے۔
دوسری طرف، صدر کی مقبولیت کم ہوکر 23 فیصد تک گرگئی، جبکہ ایک تازہ سروے کے مطابق ان کی مقبولیت کم ہوکر 18 فیصد رہ گئی ہے۔ درحقیقت 18 ماہ قبل میکرون کے منتخب ہونے کے جلد بعد ہی ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ انہوں نے گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اپنے انتہائی دائیں بازو کے مخالف میرین لے پین کو بڑی ہی آسانی سے شکست دی تھی، تاہم پہلے مرحلے میں وہ عوامی ووٹ کے محض ایک چوتھائی حصے کو ہی اپنی طرف متوجہ کرپائے تھے۔