مِری تقریر میں مضمر ہے ہر صورت خرابی کی
2 افعال انجام دینے کا سوچ کر بھی ہمارے سینے میں ہول اُٹھنے لگتے ہیں، ایک تدبیر دوسری تقریر۔ جب بھی ہمیں تقریر کے لیے مدعو کیا جائے تب ہی تدبیر سے رجوع کرتے ہیں اور اس مشکل سے بچنے کے لیے گلے کی بھیانک خرابی کے عذر سے پھوپھی، جو تولد ہی نہیں ہوئیں، کے اچانک انتقال تک ہر پینترا آزماتے ہیں، اگر پھر بھی ہمیں تقریر کرنا پڑے تو یہ سامعین کی خرابئ تقدیر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
ایسا ہرگز نہیں کہ ہمیں خطابت کا شوق نہیں، لیکن اس کا کیا کریں کہ جب بھی 4 لوگوں میں بولنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں دل بیٹھ جاتا ہے، اور وہ برمحل، خوبصورت اور شائستہ الفاظ جو ہمارے سامنے یوں ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں جیسے ہم جوش ملیح آبادی ہوں، بار بار بُلانے پر بھی نہیں آتے، اور ایسے نظریں جھکائے اور سُنی ان سُنی کیے ساکت جامد کھڑے رہتے ہیں جیسے ہم جوش والی متھیرا ہوں اور وہ جماعت اسلامی کی شوریٰ ہوں، آخر پتہ چلتا ہے کہ وہ ہمارے احترام میں ہاتھ نہیں باندھے، نیت باندھ چکے ہیں۔ پھر ہماری تقریر کے اختتام تک ان کی نماز ختم نہیں ہوتی۔
محویت اور محکومیت کا فرق
اپنی اس کمی کے سبب ہمیں مقررین اور خطیبوں پر رشک آتا ہے۔ برِصغیر اور خاص کر اس خطے کے مسلمان تو تقریر کی نعمت سے مالامال ہیں، چنانچہ ہمیں رشک بھی بہت زور کا اور بار بار آتا ہے۔ مولانا عطا اﷲ شاہ بخاری کے بارے میں تو سُنتے آئے ہیں کہ وہ ساری ساری رات بولتے تھے اور مجمع پوری محویت سے انہیں سُنتا تھا۔ بعد میں ہمیں ایک ایسے مقرر بھی عطا ہوئے جو سامعین کے لیے بخار ہوجاتے تھے۔ وہ گھنٹوں بولتے اور بڑے بڑے دانشور، شاعر، ادیب اور علما بھی ’تقریر‘ کے پابند نباتات و جمادات بنے بیٹھے رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سُننے میں محویت نہیں محکومیت کا عنصر ہوتا تھا۔ ’دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا’ کے مصرعے میں تقریر کا دیکھنا ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا، لیکن جب موصوف کو تقریر کرتے دیکھا تو ہم غالب کی زباں دانی کے ساتھ ان کی پیش بینی کے بھی قائل ہوگئے۔ ان مقرر کی تقریر سُننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، تب ہی ہم پر کُھلا کہ رقص تقریر کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔