نقطہ نظر

معاشی ترقی کے لیے کیا کپتان اور وکٹ کیپر میں ہم آہنگی نہیں؟

روپے کی قدر کم کریں یا بڑھائیں؟ اس حوالے سے فیصلہ سازی میں اسٹیٹ بینک، وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کو ایک پیج پر آنا ہوگا

عمران خان کرکٹ کے بعد اب حکومت کے کپتان بن چکے ہیں لیکن شاید 1992ء میں کرکٹ عالمی کپ کی فتحیابی کے سحر سے وہ اب تک نہیں نکلے اور اپنی بات کی وضاحت کے لیے وہ اب بھی اکثر کرکٹ کی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو بھی وہی حالات ملے ہیں جو پاکستانی کرکٹ کو ہمیشہ سے درپیش رہے ہیں۔ یعنی ٹیم کا انتخاب، فیلڈ پلیسنگ، بیٹنگ آڈر، باؤلنگ اسپیل اور اسکور بورڈ پر رنز کا مسلسل بڑھنا وغیر وغیرہ۔

کرکٹ میں تو بیٹنگ اور باؤلنگ الگ الگ کرنی ہوتی ہے مگر سیاست میں اور اس سے بڑھ کر اقتدار میں یہ دونوں کام اکھٹے کرنے ہوتے ہیں۔ اسکور کو بڑھانا بھی ہوتا ہے اور مخالفین کو آؤٹ یا آؤٹ کلاس بھی کرنا ہوتا ہے اور اپنی وکٹیں بھی بچانا ہوتی ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن بیٹنگ میں کوئی وکٹ تو نہیں گنواتی البتہ اسکور بورڈ پر اپنے نمبر بڑھاتی رہتی ہے جبکہ حکومت کو کبھی باؤنسر کبھی گوگلی کبھی ان سوئنگ اور کبھی آؤٹ سوئنگ سے پریشان کیے رکھتی ہے۔

جس طرح کرکٹ میں وکٹ کیپر کی جاب سب سے اہم ہوتی ہے اسی طرح حکومت میں وزیرِ خزانہ کی اسامی وزیرِاعظم کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ باؤلر (وزیرِاعظم) اور وکٹ کیپر (اسد عمر) کے درمیان تال میل پوری ٹیم میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر یہ تال میل نہ ہو تو پھر اچھی سے اچھی ٹیم اور بڑے سے بڑا اسکور شکست کا سبب بن سکتا ہے۔

اور ایسا ہی کچھ حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے لائن اور لینتھ کے بغیر باؤلنگ کے باوجود حکومت مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ کپتان کی ٹیم کا باہمی تال میل کچھ زیادہ بہتر نظر نہیں آرہا ہے اور ڈریسنگ روم (کچن کابینہ) میں کھینچا تانی کا ماحول بڑھتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔

حکومت میں معیشت کا گیم اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اعتماد سے وکٹ پر کھڑے رہنے اور سامنے والے کھلاڑی کو یہ تاثر دینے کا ہوتا ہے کہ مشکلات کے باوجود میچ جیتنے کے لیے عزم بلند ہے، اور ایسا دکھانے کے لیے حالات میں ایک جیسا مؤقف ضروری ہوتا ہے۔ تاہم روپے کی حالیہ گراوٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی چند ووٹوں پر کھڑی حکومت کے لیے باہر سے نہیں بلکہ اندر سے مشکلات بڑھادی ہیں۔

حکومت کے قیام کے 100 دن کے اندر اندر روپے کی ناقدری پر ہونے والی تنقید سے لگتا ہے کہ کپتان کی ٹیم کی باہمی چپقلش مزید بڑھ گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے 100 دنوں میں روپے کی ناقدری جس تیزی سے ہوئی ہے، اس نے 1999ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ہونے والی کمی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

عمران خان اپوزیشن میں تھے تو روپے کی ناقدری پر حکومت کے اوپر باؤنسر پر باؤنسر مارتے تھے۔ جس سے یا تو حکومت کو ڈک پر آوٹ ہوکر اپنا آپ بچانا پڑتا تھا یا پھر تنقید کی گیند لگنے سے خود کو زخمی ہونے کا خطرہ مول لینا پڑتا تھا۔ اب اگر عمران خان کی جانب سے روپے کی ناقدری پر ہونے والی تنقید کو اس تحریر کا حصہ بنادیا جائے تو طوالت بڑھ جائے گی۔ لیکن یاددہانی کے لیے عمران خان کے کچھ اقوال پیش کیے جارہے ہیں:

’روپے کی قدر میں کمی سے بیرون ملک رکھی ہوئی لوٹی گئی دولت بڑھ جاتی ہے۔‘

’ملک کے اندر امیر امیر ہوتا ہے اورغریب پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔‘

’پاکستان کے اوپر غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

ماضی میں روپے کی قدر کے حوالے سے حکومت اور اسٹیٹ بینک کے درمیان ایک پروٹوکول یا ضابطہ کار طے ہوگیا تھا۔ اس ضابطہ کار میں یہ طے ہوا تھا کہ روپے کی قدر سے متعلق کوئی ایک فرد فیصلہ نہیں کرے گا، بلکہ اس کے لیے تفصیلات اسٹیٹ بینک فراہم کرے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک، وزیرِ خزانہ اور وزیرِاعظم مشترکہ طور پر روپے کی ناقدری کا بوجھ اٹھائیں گے۔ اس پروٹوکول کا مقصد ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے متعلق اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی (زری پالیسی) اور حکومت کی فسکل پالیسی (مالیاتی پالیسی) کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے۔

شاید اسی ضابطہ کار کی روشنی میں مختلف اخبارات نے یہ خبر جاری کی تھی کہ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے وزیرِ خزانہ اسد عمر کو اس پیش رفت سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا، لیکن شاید کپتان عمران خان اور وکٹ کیپر اسد عمر کے درمیان رابطے کا فقدان رہا ہے جس وجہ سے عمران خان تک یہ خبر نہیں پہنچ سکی۔

ایسے میں اپنی رہائی اور شریکِ حیات کلثوم نواز کی طویل علالت کے بعد اقامے پر نااہل قرار دیے گئے میاں محمد نواز شریف بھی چپ نہ رہے اور عمران خان کو بیک وقت باؤنسر اور گوگلی دونوں ہی کرادیں۔ نواز شریف نے احتساب عدالت میں پیشی کے موقعے پر صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’ہمارے 4 سالہ دور میں ڈالر کی قدر میں اتنا اضافہ نہیں ہوا جتنا نئی حکومت کے چند ماہ میں ہوگیا ہے، ملکی معیشت کے استحکام کے لیے کرنسی مستحکم ہونی چاہیے۔ ان کے دورِ اقتدار میں ڈالر پوچھے بغیر 10 پیسے بھی اوپر نہیں جاتا تھا۔ سابق وزیرِاعظم نے کہا کہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے کرنسی مستحکم ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں توازن رہا۔‘

میاں صاحب کا بیان اپنی جگہ مگر حکومت کی معاشی ٹیم میں خلیج واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ اس کی عکاسی نہ صرف حکومتی بیانات سے ہوتی ہے بلکہ یہ عکاسی انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ سے بھی ہوتی ہے۔ حکومت کے پہلے 100 دن مکمل ہونے سے قبل پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی کہ معیشت میں اب ادائیگیوں کے توازن کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دوست ملکوں نے اتنی مدد کردی ہے کہ زرِمبادلہ ذخائر میں کمی کا کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے، اسی لیے ڈالر کی طلب بتدریج کم ہورہی تھی۔

اس کا ثبوت یہ تھا کہ 29 نومبر کو روپے کی قدر میں معمولی بہتری آئی اور انٹر بینک مارکیٹ میں ایک ڈالر 5 پیسے سستا ہوکر 133 روپے 90 پیسے پر بند ہوا تھا اور توقع یہی تھی کہ روپے کی قدر میں اگرچہ بہتری نہیں ہوتی تو کمی بھی نہیں ہوگی۔ مگر اچانک اگلے ہی دن روپیہ منہ کے بل آگرا اور انٹر بینک مارکیٹ کے آغاز پر ہی ایک ڈالر 8 روپے مہنگا ہوکر 142 کی سطح پر پہنچ گیا۔ یہ روپے کی سب سے بلند ترین سطح تھی اور کئی گھنٹوں تک ڈالر اسی سطح پر برقرار رہا۔

جب اس صورتحال کے بعد اسٹیٹ بینک سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی اور مارکیٹ کے بند ہونے پر مرکزی بینک اپنا مؤقف دے گا۔ مگر جیسے جیسے دن چڑھا روپے کی قدر میں ہونے والی گراوٹ کم ہونے لگی اور کاروبار کے اختتام پر ایک ڈالر 5 روپے 5 پیسے کمی کے بعد 139 روپے 5 پیسے پر بند ہوا۔

اسی روز اسٹیٹ بینک کی اعلان کردہ مانیٹری پالیسی میں بنیادی شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کا اضافہ کردیا گیا اور بنیادی شرح سود 5 سال کی بلند ترین سطح، 10 فیصد پر پہنچ گیا۔ اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سود میں اضافے کی وجہ ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے اور روپے کی گرتی ہوئی قدر سے اپنی پالیسی کو ہم آہنگ کرنا بتائی۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ معیشت کو مہنگائی اور بجٹ خسارے کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جولائی سے اکتوبر کے دوران قیمتوں میں اضافے کی شرح یا انفلیشن تقریباً 6 فیصد ہوگئی ہے۔

شرح سود میں اس اضافے سے حکومت کے مقامی قرضوں میں 240 ارب روپے سود کا اضافہ ہوگیا ہے۔ پالیسی سازی میں اختلاف کی وضاحت روپے کی قدر میں دوبارہ بہتری سے بھی ہوتی ہے اور 3 دسمبر کو جب ماہانہ اور کاروباری ہفتے کا آغاز ایک ساتھ ہوا تو ڈالر پھر سستا ہونے لگا اور روپیہ تگڑا ہوتا دکھائی دیا۔ انٹر بینک کے آغاز پر ایک ڈالر 3 روپے 5 پیسے سستا ہوکر 136 روپے پر آگیا اور اس دن ڈالر اوپر نیچے ہوتا رہا اور ڈالر جمعے کو کاروباری ہفتے کے اختتام پر ایک ڈالر 138روپے 74 پیسے پر بند ہوا۔

موجودہ حکومت نے ابھی کوئی بڑا قرض بیرون ملک سے لیا بھی نہیں ہے مگر اس کے باوجود جولائی سے ستمبر کی سہہ ماہی کے دوران ملک کے بیرونی قرضوں میں 3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے۔ جس میں سے 2 ارب ڈالر چین نے جولائی میں پاکستان کو فراہم کیے تھے۔ اس طرح ستمبر کے اختتام پر ملکی بیرونی قرضے 96 ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

روپے کی قدر میں کمی بیشی اپنی جگہ مگر پریشانی یہ ہے کہ سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر ملنے اور حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کے باوجود زرِمبادلہ ذخائر میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور زرِمبادلہ ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران 56 کروڑ ڈالر کی کمی دیکھی گئی، جبکہ مرکزی بینک کے پاس زرِمبادلہ ذخائر 7 ارب 50 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں اور کمرشل بینکوں کے زرِمبادلہ ذخائر 6 ارب 49 کروڑ ڈالر کی سطح پر ہیں۔ زرِمبادلہ ذخائر میں مسلسل کمی سے پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے خطرات کا سامنا رہے گا اور معیشت پر گہرے بادل منڈلاتے رہیں گے۔

روپے کی قدر میں تیزی سے اُتار چڑھاؤ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایکس چینج ریٹ پر حکومت کی معاشی ٹیم تذبذب کا شکار ہے اور فیصلہ سازی میں سقم کے علاوہ معاشی ٹیم میں ابلاغ کا بھی فقدان ہے۔

روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کے بعد یہ افواہیں خبر بن کر نشر ہونے لگیں کہ کابینہ میں قربانی دی جانے والی ہے اور عمران خان نے اسد عمر کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس خبر کو زائل کرنے کے لیے عمران خان نے کابینہ اجلاس میں بطورِ خاص اپنی معاشی ٹیم، وزیرِ خزانہ اسد عمر اور مشیر تجارت عبدالزاق داؤد کی بھرپور تعریف کی اور ساتھ ہی وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا استعفیٰ بھی منظور کرلیا۔

معروف معاشی تجزیہ کار مزمل اسلم نپی تلی اور بین السطور بات کرنے کی مہارت رکھتے ہیں مگر جس دن روپے کی قدر میں دوسری مرتبہ کمی ہوئی تو اس دن ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کچھ یوں گویا ہوئے کہ

’اسد عمر کی مثال ایک ایسی لڑکی کی ہے جس نے شادی سے قبل باورچی خانے میں جھانکا تک نہ ہو مگر میکے والوں نے رشتے کے وقت یہ دعوی کردیا ہو کہ اس کو ہر طرح کا کھانا پکانا آتا ہے۔ اب اگر وہ پورے خاندان سے بھی قورمہ بنانے کی ترکیب پوچھ لے تب بھی وہ درست ہانڈی نہیں پکا سکے گی اور جو بنے گا وہ کم از کم قورمہ نہیں ہوگا۔‘

مزمل اسلم کے بقول اسد عمر کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں معیشت کی سوجھ بوجھ نہیں ہے۔ اب جب معیشت کا جو ٹاسک انہیں دیا گیا ہے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا کیا جائے؟ اور وہ ایسے فیصلے کررہے ہیں جس کا نقصان پاکستانی معیشت اور لوگوں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی ہورہا ہے۔

مگر میری رائے میں اسد عمر کو معیشت کی ناسمجھی کا فائدہ دے کر بَری نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسد عمر بطور ممبر قومی اسمبلی پاکستان تحریکِ انصاف کی شیڈو کابینہ میں وزیرِ خزانہ تھے اور اسی حوالے سے وہ قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں بھی فعال رہے اور انہیں معیشت اور معاشی حالات سے متعلق تمام تر معلومات حاصل تھیں۔ معیشت کس طرف جارہی ہے انہیں سب معلوم تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپوزیشن میں جو گوگلی اور باؤنسر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کرائے تھے اب انہی کا سامنا انہیں اپنے ووٹرز سے ہے، اور وہ بڑے بڑے کاروباری ٹائیکون جنہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کو الیکشن میں اسپانسر کیا تھا، اب ناراض ہیں۔

عمران خان اگر کرکٹ کے کپتان کے بعد حکومت کے بھی کپتان ہیں تو انہیں اپنی ٹیم پر اعتماد قائم کرنا ہوگا اور ٹیم اراکین کی فیصلہ سازی میں ان کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ معیشت کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کنفیوژن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے یہ غیر یقینی کی صورتحال جتنی جلد ختم ہوگی معیشت کے لیے یہ اتنا ہی اچھا ہوگا۔ روپے کی قدر کم کریں یا پھر بڑھائیں؟ اس حوالے سے فیصلہ سازی میں اسٹیٹ بینک، وزیرِ خزانہ اور وزیرِاعظم کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔