کوک اسٹوڈیو کے نئے پروڈیوسروں کو چاہیے کہ وہ شاعری کے معاملے میں 'شارٹکٹ' سے گریز کریں، اچھی اور معیاری شاعری تلاش کریں
حال ہی میں کوک اسٹوڈیو کو پاکستان کے پہلے پاپ گانے کی حیثیت رکھنے والے ’کوکو کورینا‘ کا ری میک پیش کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سوہیل رانا کا مرتب کردہ، احمد رشدی کا گایا ہوا اور وحید مراد پر فلمایا گیا یہ گانا 1966ء میں ریلیز ہونے کے بعد گھر گھر کی رونق بنا اور آج بھی بچے بچے کی زبان پر ہے۔ تاہم کوک اسٹوڈیو کے ریمیک نے شائقین کو متاثر کرنے کے بجائے سخت خفا کردیا۔
پچھلی ایک دہائی میں کوک اسٹوڈیو ملک کا سب سے بڑا میوزک پلیٹ فورم بن چکا ہے۔ اس دوران اسٹوڈیو کو بہت سے پرانے کلاسک گانے ریمیک کرنے پر داد اور پذیرائی حاصل ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی گانوں میں زبان کی غلطیاں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔
ہیرالڈ میگزین نے زہرا صابری سے رابطہ کیا جنہوں نے کوک اسٹوڈیو کے 9 سیزنز کے لیے لوک، کلاسیکی اور جدید گانوں کا ترجمہ کیا ہے، ترجمے کا مقصد دراصل سامعین تک مختلف زبانوں کے گانوں کو بہتر طور پر سمجھانا ہے۔ ہیرالڈ میگزین نے ان کو اپنے تجربات کے بارے میں اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ انہوں نے اسٹوڈیو میں شاعری کی ادائیگی کے حوالے سے اپنے کچھ تاملات ظاہر کیے۔ انہوں نے اس بارے میں ثقافتی تجزیہ نگار اور میوزک پلیٹ فورم ’پٹاری‘ کے سابقہ سی او او احمر نقوی سے گفتگو کی۔
مزید کے لیے کلک کریں نقوی: زہرا، کوک اسٹوڈیو کے لیے 9 سیزنز تک کام کرنے اور 2 سیزن سے لے کر 10ویں سیزن تک سارے گانوں کا ترجمہ کرنے کے بعد، پاکستان میں موسیقی اور نغمہ نگاری کے حوالے سے وہ کون سی سب سے اہم بات ہے جو آپ نے اخذ کی؟
صابری: میرا عاجزانہ خیال ہے کہ پاکستان میں اس وقت موسیقی اور نغمہ نگاری کے حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوک اسٹوڈیو جیسے فورم نے ہمارے زمانے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
کوک اسٹوڈیو سے پہلے بھی ہمارے یہاں لوک موسیقی اور پاپ یا راک موسیقی کا امتزاج دیکھنے میں آیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کئی سال پہلے محمد علی شیہکی اور الّن فقیر نے مل کر 'الله الله کر بھیا' گایا تھا اور یہ گانا بہت مقبول ہوا تھا۔ جیسے کوک اسٹوڈیو میں میشا شفیع اور عارف لوہار کی جوڑی مقبول ہوئی ویسے ہی اُس زمانے میں شیہکی اور الّن فقیر کی جوڑی مقبول ہوئی تھی۔ اس کے کچھ عرصے بعد 'جنون' بینڈ نے بھی اپنے آس پاس کی لوک موسیقی اور لوک شاعری کو اپنے گانوں میں جذب کرنے کی کوشش کی۔
مزید کے لیے کلک کریں عارف لوہار اور میشا شفیع کی گائی ہوئی جگنی
ہمارا شاعرانہ لوک ورثہ بہت ہی بافراط اور پُراثر ہے۔ اگر ان گزرے وقتوں میں کوک اسٹوڈیو جیسا معیاری پلیٹ فورم قائم ہوتا تو وہ مقبول ہوتا اور اس کی خدمات بھی یاد رکھی جاتیں۔ لیکن چونکہ ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اچھے معیار کے نئے گانوں کا فقدان پیدا ہوگیا ہے، اس لیے کوک اسٹوڈیو نے نہ صرف پرانے گانوں کی شاعری اور دھنیں لے کر اسے جدید اور دلکش طرز میں پیش کیا بلکہ بے پناہ مقبولیت بھی سمیٹی۔ اگر آپ غور کریں تو کوک اسٹوڈیو نے جو اپنے اوریجنل گانے ریلیز کیے ہیں ان میں سے زیادہ تر نے وہ مقبولیت نہیں پائی جو ہمارے پرانے کلاسک گانوں کے ریمیک نے پائی ہے، لہٰذا کوک اسٹوڈیو پاکستان کی دنیا بھر میں زبردست کامیابی میں گزرے زمانے کے لوگوں کی شاعرانہ اور موسیقارانہ صلاحیتوں کا بہت بڑا کردار ہے۔
میری نظر میں کوک اسٹوڈیو کا ہمارے زمانے کے سب سے بڑے میوزک پلیٹ فورم بننے کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج ہمارے یہاں اچھے معیار کی غنائی شاعری کا بحران ہے۔ کوک اسٹوڈیو نے پرانے شعرا کے کلام سے استفادہ کرکے ہماری میوزک انڈسٹری میں ایک بڑھتے ہوئے خلا کو پُر کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔
نقوی: آپ کی رائے میں اس بحران کا سبب کیا ہے؟
صابری: ہماری نئی نسل کے ایک بہت بڑے حصے کے لیے اپنے ملک کی زبانوں میں خیالات اور جذبات کا اظہار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ انگریزی بولنے والے ممالک میں نئی نسل کو اس مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔ وہاں اب بھی نئے نئے گلوکار اور موسیقار معیاری نئے انگریزی گیت لکھ رہے ہیں اور دنیا بھر میں مقبولیت پا رہے ہیں۔ وہ نئے 'کلاسکز' کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور بڑے ہی پرمعنی اور کامیاب طریقے سے نئی نسل کے تازہ خیالات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اور نئی نسل اپنے گانوں میں تازہ، پختہ اور معنی خیز شاعری کرنے میں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں پاپ اور راک موسیقی گزشتہ 2 دہائیوں میں کافی کمزور پڑگئی ہے۔ آپ ہمارے بینڈز کو ہی لیجیے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے پاپ اور راک بینڈز کے نئے اردو (اور کچھ حد تک پنجابی) گانے نہ صرف پورے خطے میں بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھے۔ لیکن آج کل جو نئے اردو بینڈز سامنے آ رہیں ہیں، ان کے گانے پاکستان کے اندر بھی خاص مقبولیت حاصل نہیں کر پا رہے۔ ابھی بھی میوزک انڈسٹری میں 1990ء اور 1980ء کی دہائیوں میں شہرت حاصل کرنے والے بینڈز (جیسے کہ 'وائٹل سائنز'، 'جنون'، 'اسٹرنگز' اور 'آواز') اور ان سے وابستہ افراد کا ہی بول بالا ہے۔
اس کے علاوہ کئی برسوں تک بہت زبردست انداز میں دیسی گلوکاروں کی سرپرستی کرنے والے پی ٹی وی چینل کے اثر و رسوخ میں کافی حد تک کمی آگئی ہے۔ کئی نجی چینلز کھل گئے ہیں اور انہوں نے اک طویل عرصے تک بولی وڈ کے گانوں کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔
بولی وڈ ایک ایسی انڈسٹری ہے جہاں پہلے ہی سے گیتوں کی شاعری میں اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ بولی وڈ کی فلمیں اگرچہ ہندی فلمیں کہلاتی ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے گیتوں کی زبان ہمیشہ اردو ہی رہی ہے۔ ایک زمانے میں ان گیتوں کی شاعری بہت بہتر ہوتی تھی لیکن پچھلے 15 سے 20 سالوں میں ان گیتوں میں اردو زبان اور شاعرانہ خیالات کا معیار تیزی سے گھٹتا چلا گیا ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ بولی وڈ کے گیتوں میں زیادہ تر شاعری انتہائی ناقص، گھسی پٹی، بے معنی اور بے تکی ہوتی ہے۔
لہٰذا سرحد کے دونوں پار معیاری اور معنی خیز اردو گانوں کی کمی پیدا ہوچکی ہے۔ اسی پس منظر میں کوک اسٹوڈیو نے گزرے ادوار کے مقبول و معروف گانوں اور ان کے کلام کو نئے اور جدید طرز سے لوگوں کے سامنے پیش کرکے اس قدر مقبولیت حاصل کی۔
نقوی: آپ نے کئی برسوں تک کوک اسٹوڈیو کے گانوں کی شاعری کا ترجمہ کیا۔ اس دوران آپ اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح دیکھتی تھیں؟ ایک مترجم کی حیثیت سے آپ کا ہدف کیا تھا؟
صابری: میں نے اس دوران مختلف زبانوں کے تقریباً 200 گانوں کا ترجمہ کیا۔ اس کام میں کئی زبان دانوں اور پروفیسروں نے ہماری دل کھول کر مدد کی، جس میں غنائی شاعر عاصم رضا کا نام سرِ فہرست ہے۔ کوک اسٹوڈیو میں ہمیں حضرت امیر خسرو اور بابا بلھے شاہ جیسے عظیم شعرا کے کلام کا ترجمہ کرنے کا ایک قیمتی موقع ملا اور میری کوشش تھی کہ میں ایسے مقبول و معروف کلام کے ایک ایک لفظ کا ایمانداری سے ترجمہ کروں تاکہ لوگ اسے پسند کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر طور پر سمجھ بھی سکیں۔
جہاں تک امیر خسرو و دیگر کے فارسی کلام کا تعلق ہے، وہ تو ہمارے پاس صدیوں سے دیوانوں میں محفوظ ہے۔ تاہم جب بات ہمارے علاقائی لوک ورثے کی آتی ہے تو کوک اسٹوڈیو میں ایسے کئی لوک گیت گائے جا رہے تھے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہمارے گلوکاروں تک پہنچے تھے، لیکن جن کو شاید آج تک قلم بند کرکے کہیں شائع نہیں کیا گیا تھا۔
میری نظر میں یہ ایک اچھا موقع تھا کہ ہم ان لوک گیتوں کے بولوں کو محفوظ کرکے ان کی متعلقہ زبانوں کے رسم الخط میں لکھ کر کوک اسٹوڈیو کے پلیٹ فورم سے شائع کریں۔ چنانچہ پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر یہ طے ہوا کہ ان گیتوں کے کیپشنز کو نہ صرف رومن رسم الخط اور انگریزی ترجمے کے ساتھ بلکہ ان کی اصل زبانوں کے اپنے اپنے رسم الخط میں بھی چلایا جائے گا۔ سرائیکی، پشتو، براہوی اور پنجابی جیسی زبانوں کے لوک گیتوں کے الفاظ کے صحیح ہجوں کا تعین کرنے میں ہمیں جو محنت درکار ہوگی، وہ بامصرف ثابت ہوگی کیونکہ یہ مقامی زبانوں کی فہم بڑھانے میں کردار ادا کرے گی۔ آگے چل کر ہم نے پشتو، بلوچی، سندھی اور ذرا مشکل لفظوں والے پنجابی گانوں کے لیے انگریزی ترجمے کے ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی گانوں کے ساتھ پیش کرنا شروع کردیا تاکہ ہم اپنے ملک میں سننے والوں کی وسیع تر تعداد کی ضروریات کو بھی پورا کرسکیں۔
نقوی: آپ کی ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوک اسٹوڈیو کی جانب سے ترجمے کے اس پروجیکٹ یعنی ایک ثقافتی یا تفریحی پروڈکٹ میں ادبی و علمی دنیا کے ماہرین کو شامل کرنے کی ایک منفرد کاوش تھی۔ لیکن یہ پورا سلسلہ آپ کے لیے کس قسم کے تجربات اور مشاہدات کا حامل بنا؟
صابری: میں بیان نہیں کرسکتی کہ یہ میرے لیے فنی اور تعلیمی اعتبار سے کس قدر مثبت تجربہ رہا۔ پروگرام کے 9 سیزنز پر کام کرتے ہوئے مجھے تقریباً 13 یا 15 زبانوں پر کام کرنے اور ان سب کے متعلقہ رسم الخط سیکھنے کا موقع ملا۔ ہم نے سرائیکی، سندھی، پشتو، پنجابی، براہوی، بلوچی، برج بھاشا، مارواڑی، بنگالی، اردو، فارسی، عربی، اور ترک زبان کے گانوں کے ترجمے کیے۔
ان میں سے اکثر زبانوں میں کئی لہجے (ڈائلکٹز-dialects) ہیں جو صوبوں اور اضلاع کے اندر ہر چند کوس پر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہمیں کوک اسٹوڈیو میں گائے جانے والے گانوں کی سرائیکی میں زیادہ مشابہت پنجابی سے نظر آتی تھی اور کبھی سندھی سے۔ کوک اسٹوڈیو کے 10ویں سیزن میں نتاشا خان اور علی ظفر کے گانے 'یو سوچ' میں ہمیں پشتو کے ایک ایسے لہجے کا تجربہ ہوا جو مردان میں بولا جاتا ہے اور اس کی چند خصوصیات پشاور کی پشتو سے مختلف تھیں۔