نقطہ نظر

کوک اسٹوڈیو کی شاعری اور شارٹ کٹ

کوک اسٹوڈیو کے نئے پروڈیوسروں کو چاہیے کہ وہ شاعری کے معاملے میں 'شارٹکٹ' سے گریز کریں، اچھی اور معیاری شاعری تلاش کریں
|

حال ہی میں کوک اسٹوڈیو کو پاکستان کے پہلے پاپ گانے کی حیثیت رکھنے والے ’کوکو کورینا‘ کا ری میک پیش کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

سوہیل رانا کا مرتب کردہ، احمد رشدی کا گایا ہوا اور وحید مراد پر فلمایا گیا یہ گانا 1966ء میں ریلیز ہونے کے بعد گھر گھر کی رونق بنا اور آج بھی بچے بچے کی زبان پر ہے۔ تاہم کوک اسٹوڈیو کے ریمیک نے شائقین کو متاثر کرنے کے بجائے سخت خفا کردیا۔

پچھلی ایک دہائی میں کوک اسٹوڈیو ملک کا سب سے بڑا میوزک پلیٹ فورم بن چکا ہے۔ اس دوران اسٹوڈیو کو بہت سے پرانے کلاسک گانے ریمیک کرنے پر داد اور پذیرائی حاصل ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی گانوں میں زبان کی غلطیاں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔

ہیرالڈ میگزین نے زہرا صابری سے رابطہ کیا جنہوں نے کوک اسٹوڈیو کے 9 سیزنز کے لیے لوک، کلاسیکی اور جدید گانوں کا ترجمہ کیا ہے، ترجمے کا مقصد دراصل سامعین تک مختلف زبانوں کے گانوں کو بہتر طور پر سمجھانا ہے۔ ہیرالڈ میگزین نے ان کو اپنے تجربات کے بارے میں اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ انہوں نے اسٹوڈیو میں شاعری کی ادائیگی کے حوالے سے اپنے کچھ تاملات ظاہر کیے۔ انہوں نے اس بارے میں ثقافتی تجزیہ نگار اور میوزک پلیٹ فورم ’پٹاری‘ کے سابقہ سی او او احمر نقوی سے گفتگو کی۔

نقوی: زہرا، کوک اسٹوڈیو کے لیے 9 سیزنز تک کام کرنے اور 2 سیزن سے لے کر 10ویں سیزن تک سارے گانوں کا ترجمہ کرنے کے بعد، پاکستان میں موسیقی اور نغمہ نگاری کے حوالے سے وہ کون سی سب سے اہم بات ہے جو آپ نے اخذ کی؟

صابری: میرا عاجزانہ خیال ہے کہ پاکستان میں اس وقت موسیقی اور نغمہ نگاری کے حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوک اسٹوڈیو جیسے فورم نے ہمارے زمانے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

کوک اسٹوڈیو سے پہلے بھی ہمارے یہاں لوک موسیقی اور پاپ یا راک موسیقی کا امتزاج دیکھنے میں آیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کئی سال پہلے محمد علی شیہکی اور الّن فقیر نے مل کر 'الله الله کر بھیا' گایا تھا اور یہ گانا بہت مقبول ہوا تھا۔ جیسے کوک اسٹوڈیو میں میشا شفیع اور عارف لوہار کی جوڑی مقبول ہوئی ویسے ہی اُس زمانے میں شیہکی اور الّن فقیر کی جوڑی مقبول ہوئی تھی۔ اس کے کچھ عرصے بعد 'جنون' بینڈ نے بھی اپنے آس پاس کی لوک موسیقی اور لوک شاعری کو اپنے گانوں میں جذب کرنے کی کوشش کی۔

عارف لوہار اور میشا شفیع کی گائی ہوئی جگنی

ہمارا شاعرانہ لوک ورثہ بہت ہی بافراط اور پُراثر ہے۔ اگر ان گزرے وقتوں میں کوک اسٹوڈیو جیسا معیاری پلیٹ فورم قائم ہوتا تو وہ مقبول ہوتا اور اس کی خدمات بھی یاد رکھی جاتیں۔ لیکن چونکہ ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اچھے معیار کے نئے گانوں کا فقدان پیدا ہوگیا ہے، اس لیے کوک اسٹوڈیو نے نہ صرف پرانے گانوں کی شاعری اور دھنیں لے کر اسے جدید اور دلکش طرز میں پیش کیا بلکہ بے پناہ مقبولیت بھی سمیٹی۔ اگر آپ غور کریں تو کوک اسٹوڈیو نے جو اپنے اوریجنل گانے ریلیز کیے ہیں ان میں سے زیادہ تر نے وہ مقبولیت نہیں پائی جو ہمارے پرانے کلاسک گانوں کے ریمیک نے پائی ہے، لہٰذا کوک اسٹوڈیو پاکستان کی دنیا بھر میں زبردست کامیابی میں گزرے زمانے کے لوگوں کی شاعرانہ اور موسیقارانہ صلاحیتوں کا بہت بڑا کردار ہے۔

میری نظر میں کوک اسٹوڈیو کا ہمارے زمانے کے سب سے بڑے میوزک پلیٹ فورم بننے کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج ہمارے یہاں اچھے معیار کی غنائی شاعری کا بحران ہے۔ کوک اسٹوڈیو نے پرانے شعرا کے کلام سے استفادہ کرکے ہماری میوزک انڈسٹری میں ایک بڑھتے ہوئے خلا کو پُر کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔

نقوی: آپ کی رائے میں اس بحران کا سبب کیا ہے؟

صابری: ہماری نئی نسل کے ایک بہت بڑے حصے کے لیے اپنے ملک کی زبانوں میں خیالات اور جذبات کا اظہار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ انگریزی بولنے والے ممالک میں نئی نسل کو اس مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔ وہاں اب بھی نئے نئے گلوکار اور موسیقار معیاری نئے انگریزی گیت لکھ رہے ہیں اور دنیا بھر میں مقبولیت پا رہے ہیں۔ وہ نئے 'کلاسکز' کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور بڑے ہی پرمعنی اور کامیاب طریقے سے نئی نسل کے تازہ خیالات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اور نئی نسل اپنے گانوں میں تازہ، پختہ اور معنی خیز شاعری کرنے میں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں پاپ اور راک موسیقی گزشتہ 2 دہائیوں میں کافی کمزور پڑگئی ہے۔ آپ ہمارے بینڈز کو ہی لیجیے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے پاپ اور راک بینڈز کے نئے اردو (اور کچھ حد تک پنجابی) گانے نہ صرف پورے خطے میں بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھے۔ لیکن آج کل جو نئے اردو بینڈز سامنے آ رہیں ہیں، ان کے گانے پاکستان کے اندر بھی خاص مقبولیت حاصل نہیں کر پا رہے۔ ابھی بھی میوزک انڈسٹری میں 1990ء اور 1980ء کی دہائیوں میں شہرت حاصل کرنے والے بینڈز (جیسے کہ 'وائٹل سائنز'، 'جنون'، 'اسٹرنگز' اور 'آواز') اور ان سے وابستہ افراد کا ہی بول بالا ہے۔

اس کے علاوہ کئی برسوں تک بہت زبردست انداز میں دیسی گلوکاروں کی سرپرستی کرنے والے پی ٹی وی چینل کے اثر و رسوخ میں کافی حد تک کمی آگئی ہے۔ کئی نجی چینلز کھل گئے ہیں اور انہوں نے اک طویل عرصے تک بولی وڈ کے گانوں کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔

بولی وڈ ایک ایسی انڈسٹری ہے جہاں پہلے ہی سے گیتوں کی شاعری میں اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ بولی وڈ کی فلمیں اگرچہ ہندی فلمیں کہلاتی ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے گیتوں کی زبان ہمیشہ اردو ہی رہی ہے۔ ایک زمانے میں ان گیتوں کی شاعری بہت بہتر ہوتی تھی لیکن پچھلے 15 سے 20 سالوں میں ان گیتوں میں اردو زبان اور شاعرانہ خیالات کا معیار تیزی سے گھٹتا چلا گیا ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ بولی وڈ کے گیتوں میں زیادہ تر شاعری انتہائی ناقص، گھسی پٹی، بے معنی اور بے تکی ہوتی ہے۔

لہٰذا سرحد کے دونوں پار معیاری اور معنی خیز اردو گانوں کی کمی پیدا ہوچکی ہے۔ اسی پس منظر میں کوک اسٹوڈیو نے گزرے ادوار کے مقبول و معروف گانوں اور ان کے کلام کو نئے اور جدید طرز سے لوگوں کے سامنے پیش کرکے اس قدر مقبولیت حاصل کی۔

نقوی: آپ نے کئی برسوں تک کوک اسٹوڈیو کے گانوں کی شاعری کا ترجمہ کیا۔ اس دوران آپ اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح دیکھتی تھیں؟ ایک مترجم کی حیثیت سے آپ کا ہدف کیا تھا؟

صابری: میں نے اس دوران مختلف زبانوں کے تقریباً 200 گانوں کا ترجمہ کیا۔ اس کام میں کئی زبان دانوں اور پروفیسروں نے ہماری دل کھول کر مدد کی، جس میں غنائی شاعر عاصم رضا کا نام سرِ فہرست ہے۔ کوک اسٹوڈیو میں ہمیں حضرت امیر خسرو اور بابا بلھے شاہ جیسے عظیم شعرا کے کلام کا ترجمہ کرنے کا ایک قیمتی موقع ملا اور میری کوشش تھی کہ میں ایسے مقبول و معروف کلام کے ایک ایک لفظ کا ایمانداری سے ترجمہ کروں تاکہ لوگ اسے پسند کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر طور پر سمجھ بھی سکیں۔

جہاں تک امیر خسرو و دیگر کے فارسی کلام کا تعلق ہے، وہ تو ہمارے پاس صدیوں سے دیوانوں میں محفوظ ہے۔ تاہم جب بات ہمارے علاقائی لوک ورثے کی آتی ہے تو کوک اسٹوڈیو میں ایسے کئی لوک گیت گائے جا رہے تھے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہمارے گلوکاروں تک پہنچے تھے، لیکن جن کو شاید آج تک قلم بند کرکے کہیں شائع نہیں کیا گیا تھا۔

میری نظر میں یہ ایک اچھا موقع تھا کہ ہم ان لوک گیتوں کے بولوں کو محفوظ کرکے ان کی متعلقہ زبانوں کے رسم الخط میں لکھ کر کوک اسٹوڈیو کے پلیٹ فورم سے شائع کریں۔ چنانچہ پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر یہ طے ہوا کہ ان گیتوں کے کیپشنز کو نہ صرف رومن رسم الخط اور انگریزی ترجمے کے ساتھ بلکہ ان کی اصل زبانوں کے اپنے اپنے رسم الخط میں بھی چلایا جائے گا۔ سرائیکی، پشتو، براہوی اور پنجابی جیسی زبانوں کے لوک گیتوں کے الفاظ کے صحیح ہجوں کا تعین کرنے میں ہمیں جو محنت درکار ہوگی، وہ بامصرف ثابت ہوگی کیونکہ یہ مقامی زبانوں کی فہم بڑھانے میں کردار ادا کرے گی۔ آگے چل کر ہم نے پشتو، بلوچی، سندھی اور ذرا مشکل لفظوں والے پنجابی گانوں کے لیے انگریزی ترجمے کے ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی گانوں کے ساتھ پیش کرنا شروع کردیا تاکہ ہم اپنے ملک میں سننے والوں کی وسیع تر تعداد کی ضروریات کو بھی پورا کرسکیں۔

نقوی: آپ کی ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوک اسٹوڈیو کی جانب سے ترجمے کے اس پروجیکٹ یعنی ایک ثقافتی یا تفریحی پروڈکٹ میں ادبی و علمی دنیا کے ماہرین کو شامل کرنے کی ایک منفرد کاوش تھی۔ لیکن یہ پورا سلسلہ آپ کے لیے کس قسم کے تجربات اور مشاہدات کا حامل بنا؟

صابری: میں بیان نہیں کرسکتی کہ یہ میرے لیے فنی اور تعلیمی اعتبار سے کس قدر مثبت تجربہ رہا۔ پروگرام کے 9 سیزنز پر کام کرتے ہوئے مجھے تقریباً 13 یا 15 زبانوں پر کام کرنے اور ان سب کے متعلقہ رسم الخط سیکھنے کا موقع ملا۔ ہم نے سرائیکی، سندھی، پشتو، پنجابی، براہوی، بلوچی، برج بھاشا، مارواڑی، بنگالی، اردو، فارسی، عربی، اور ترک زبان کے گانوں کے ترجمے کیے۔

ان میں سے اکثر زبانوں میں کئی لہجے (ڈائلکٹز-dialects) ہیں جو صوبوں اور اضلاع کے اندر ہر چند کوس پر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہمیں کوک اسٹوڈیو میں گائے جانے والے گانوں کی سرائیکی میں زیادہ مشابہت پنجابی سے نظر آتی تھی اور کبھی سندھی سے۔ کوک اسٹوڈیو کے 10ویں سیزن میں نتاشا خان اور علی ظفر کے گانے 'یو سوچ' میں ہمیں پشتو کے ایک ایسے لہجے کا تجربہ ہوا جو مردان میں بولا جاتا ہے اور اس کی چند خصوصیات پشاور کی پشتو سے مختلف تھیں۔

یہ سوچ، علی ظفر

کبھی کبھار ہمیں اپنے گانوں میں پنجابی کے چند مختلف لہجوں کا بھی تجربہ ہوا۔ بہت سے لوگوں کو کوک اسٹوڈیو کے لیے پنجابی زبان کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اسٹوڈیو کے بیشتر گانے پنجابی میں تھے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پنجابی زبان پاکستانی معاشرے کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔

نقوی: جہاں تک کوک اسٹوڈیو کے گلوکاروں اور موسیقاروں کا تعلق ہے تو آپ نے ان میں کس حد تک گانوں کی شاعری کو صحیح طرح سمجھنے اور اس کو درست طریقے سے ادا کرنے کا جذبہ پایا؟

صابری: ہمارے ملک کا تعلیمی معیار وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسکول نہ جانے کے باوجود بھی گلوکار ایک خاص قسم کی تعلیمی تربیت سے مستفید ہوپاتے تھے۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارا ناقص تعلیمی نظام لوگوں کو انگریزی کی طرف دکھیل رہا ہے، خاص طور پر بڑے شہروں میں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے شہری انگریزی میں ماہر ہوگئے ہیں اور معیاری انگریزی لکھ یا بول سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ ان کی اردو کمزور ہوگئی ہے۔ چھوٹے شہروں یا متوسط طبقوں والے محلوں سے آنے والے گلوکاروں کی اردو پھر بھی بہتر ہے، خاص طور پر ان کی جو ٹھیٹ پنجابی بھی جانتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک 'غیر ملکی' (یعنی ہندوستانی) زبان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی غیر ملکی زبان کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دینا ہے، تو پھر یہ درجہ انگریزی کو کیوں نہ حاصل ہو؟ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ چونکہ اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو جیسی دیسی زبانوں میں فارسی، عربی اور سنسکرت سے ماخوذ کردہ الفاظ اور ادبی استعاروں کا ایک مشترکہ ورثہ ہے، اگر آپ اپنے تعلیمی نظام میں ان میں سے کسی بھی ایک زبان پر زور دیتے ہیں تو آپ طالبِ علموں کے لیے باقی تمام دیسی زبانوں کے دروازے بھی کھلے چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن انگریزی پر زور دینے سے ہماری دیسی زبانوں کا بیک وقت تحفظ نہیں ہوتا۔

ہمارے یہاں لوگوں میں دیسی زبانوں کا علم گھٹ رہا ہے اور ہمیں کوک اسٹوڈیو میں اس رجحان کے منفی اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ کوک اسٹوڈیو نے ایک ایسی روایت کو فروغ دیا جس میں نئے گلوکار ایسی زبانوں میں گیت گاتے ہیں جن سے وہ کسی نہ کسی حد تک نابلد ہوتے ہیں۔ یہ ویسے تو ایک مثبت بات ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی نسل اپنی مقامی روایتوں میں دلچسپی لے رہی ہے لیکن اور بھی اچھا ہوتا اگر ان زبانوں میں گیت گانے کے دوران زبان کی سنگین غلطیاں کرنا بھی کوک اسٹوڈیو کے نوجوان گلوکاروں کے لیے عام سی بات نہ ہوگئی ہوتی۔

بہت سے ایسے گلوکار جنہوں نے پچھلے 10 سالوں میں ہماری میوزک انڈسٹری میں بہت شہرت پائی ہے، ان کو گانوں کے بولوں میں بہت بنیادی غلطیاں کرنے کی بُری عادت پڑگئی ہے۔ سب سے بُرا اثر فارسی زبان پر پڑا ہے جو ہماری اپنی اس کلاسیکی روایت سے بڑھتے ہوئے فاصلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوسرے نمبر پر پنجابی زبان ہے کیونکہ گلوکار اکثر سمجھتے ہیں کہ انہیں پنجابی تو آتی ہی ہے لیکن دراصل ان کو پنجابی کی صحیح سمجھ نہیں ہوتی۔ بعض اوقات اردو میں بھی سنگین غلطیاں نظر میں آئی ہیں۔

مثلاً 'تاجدارِ حرم' ایک انتہائی مشہور و معروف قوالی ہے اور اس میں اردو، برج بھاشا، فارسی اور عربی کے اشعار ہیں۔ میری نظر میں عاطف اسلم نے اس کو کوک اسٹوڈیو کے لیے بڑی ہی خوبصورتی سے گایا ہے اور بڑی کامیابی سے اس مشہور قوالی کو ایک عقیدت مندانہ گیت کے طور پر پیش کیا ہے۔ مگر ممکن ہے کہ عاطف اسلم نے کسی استاد سے پوچھنے کے بجائے کہیں انٹرنیٹ سے اس قوالی کے کوئی ناقص سے بول تلاش کرلیے تھے۔ انہوں نے قوالی کے کئی فارسی اشعار کو بالکل ہی تباہ و برباد کرکے پیش کیا جبکہ اردو اشعار کو بھی کہیں کہیں بگاڑ کر پڑھا ہے۔

مثال کی طور پر نبی کریم ﷺ کو 'عرب کے کنور‘ (یعنی 'حجاز کے شہزادے') کے بجائے عاطف اسلم نے غلطی سے 'رب کے کنور‘ (یعنی 'خدا کے شہزادے') پڑھ دیا ہے۔ حضور سے دُور ہونے ('در فرقتِ تو اے اُمّی لقب') کو غلطی سے 'دارِ فرقت تو اے اُمّی لقب' (یعنی 'دوری کا گھر تم اے اُمّی لقب‘) پڑھ دیا ہے جس کے بڑے عجیب اور بے تکے سے معنی نکلتے ہیں۔ 'گاہے بفِگن دزدیدہ نظر' (یعنی 'کبھی چوری چوری نظر ڈالو') کو کم علمی کی وجہ سے 'گاہے بگہا دزدیدہ نظر' پڑھ دیا ہے جس کا کوئی مطلب نکلتا ہی نہیں ہے۔

آگے چل کر اس سے بھی بڑی غلطیاں ہیں۔ 'اے مشک بید عَنبر فِشاں' (یعنی 'اے خوشبو پھیلانے والے درخت') کو 'اے مجتبِ زُمبر فِشاں' پڑھ دیا ہے جس کے سرے سے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ 'اے قاصدِ فرخندہ په' (یعنی 'اے مبارک قدم پیغمبر') کو پتہ نہیں کیوں اور کیسے 'اے قاصدِ پُرخندہ پہ' پڑھ دیا ہے جبکہ 'پر خندہ' کے معنی 'ہنسی سے بھرے ہوئے' کے ہیں جو ظاہر سی بات ہے کسی کے پیروں کے تعریف میں تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ اس سب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے نامور نوجوان گلوکار گانے کے بولوں کا مطلب سمجھ کر نہیں گا رہے۔ اگر وہ سمجھتے، تو ایسی غلطیاں نہیں کرتے۔

تاجدارِ حرم، عاطف اسلم

نقوی: تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان گلوکاروں کو بہت سطحی علم ہے کہ گانے کا مرکزی خیال کیا ہے اور ممکنہ طور پر وہ شاعری کی ہر ایک سطر کے مطلب سے واقف نہیں۔ لیکن یہ ضروری بھی کیوں ہے کہ ایک گلوکار کسی شاعر کے اشعار کو درست الفاظ کے ساتھ اور ان کا معنی اچھی طرح سمجھ کر پڑھیں؟ اگر کسی لفظ کے تبدیل یا مسخ ہونے کی وجہ سے شعر کے معنی میں کوئی باریک سی تبدیلی پیدا ہوجائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

صابری: یہاں محض کوئی باریک سی تبدیلی پیدا نہیں ہو رہی۔ یہاں گلوکار ایسے ایسے مصرعے پڑھ رہے ہیں جن کی سرے سے کوئی معنی ہی نہیں۔ ایسے الفاظ گا رہے ہیں جو الفاظ ہیں ہی نہیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس رجحان کا اگلی نسل تک لوک شاعری کی منتقلی پر کتنا منفی اثر ہوگا، یہ الفاظ اپنے درست معنوں سمیت ہم تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے آئے ہیں مگر اب کیا ہم ان کو توڑ مڑوڑ کر، بے معنی کرکے اگلی نسل تک پہنچائیں گے؟ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ کوک اسٹوڈیو کے علاوہ ماضی کے کسی بھی پروگرام میں کبھی کسی گلوکار نے کوئی غلطی نہیں کی ہوگی، ضرور کی ہوگی، لیکن ہمارے پروگرام کوک اسٹوڈیو میں ایسی سنگین غلطیوں کا ہونا کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے۔

کوک اسٹوڈیو نے بہت کامیابی حاصل کی ہے، ایسے کم ہی میوزک پروگرام ہوں گے جنہوں نے اس خطے کی موسقی پر اتنے گہرے نقوش چھوڑے ہوں۔ کوک اسٹوڈیو کے بعد پاپ اور راک موسیقی کرنے والے نوجوان گلوکاروں کا روایتی اور لوک گلوکاروں کے ساتھ مل کر گانے کا شوق اور رجحان بڑھتا ہوا دکھائی دیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن ہمارے ملک کے سب سے بڑے میوزک پلیٹ فورم ہونے کی حیثیت سے کوک اسٹوڈیو کی ذمہ داری ہے کہ وہ خیال رکھے کہ جن کلاسیکی اور لوک روایات اور شاعری سے ان کے گانے مستفید ہو رہے ہیں وہ ان کی منتقلی کے حوالے سے منفی کے بجائے مثبت کردار ہی ادا کرے۔

نقوی: جس طریقہ کار سے کوک اسٹوڈیو میں گانے بنتے ہیں، وہ ویسا نہیں جو کسی عام میوزک لیبل کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ کوک اسٹوڈیو ایک مکمل کارپوریٹ اشتہار کو پیش کر رہا ہے تو پھر ان کو اس کی کیوں فکر ہے کہ شاعری کا کوئی لفظ یا اس کی ادائیگی درست ہے یا نہیں؟

صابری: یہ بات سچ ہے کہ اس پروجیکٹ کے کارپوریٹ پہلو کا کوک اسٹوڈیو پر ضرور اثر پڑتا ہے لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کروں گی کے پروڈیوسروں کو موسیقی کے معیار یا شاعری کی درستگی کی کوئی پروا نہیں تھی۔ پروڈیوسر حضرات کو ادراک تھا کہ کوک اسٹوڈیو کے گانوں میں وہ مشہور اور پرانے کلاسکز سے استفادہ کر رہے ہیں اور وہ چاہتے تھے کے پرانے گانوں کا کلام اپنی اصلی اور درست صورت میں ہی برقرار رکھ کر پیش کیا جائے۔ جہاں آرٹسٹ نے کلام کو بگاڑ کر پیش کیا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ موسیقی میں کوئی انقلاب لانے کی کوئی دانستہ کوشش تھی، بلکہ یہ محض ایک غلطی تھی جو گلوکار کی لاپرواہی کی وجہ سے سر زد ہوئی۔ پروڈیوسرز کو عام طور پر ایسی غلطیوں کے بارے میں جان کر افسوس ہوتا۔

عمومی طور پر میں روحیل حیات اور 'اسٹرنگز' دونوں کو داد دوں گی کہ وہ ایسی غلطیوں کو کافی سنجیدگی سے دیکھتے تھے۔ اگر انہیں گانے کی ریلیز سے پہلے زبان کی کسی غلطی کا پتہ چل جاتا، تو وہ اکثر گانے کے ناقص حصوں کو دوبارہ ریکارڈ کرکے درست کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر ریلیز شدہ گانے میں غلطیاں رہ جاتیں تو وہ اس بات سے اتفاق کرتے کہ اسٹوڈیو کو گلوکار کی غلطی پر پردہ ڈالنے کے بجائے گانے کے کیپشن میں صحیح الفاظ پیش کرکے غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے۔

'سگھڑا آویں سانول یار'، صنم ماروی

صرف پرانے گانوں کو نئے طرز سے پیش کرنے میں ہی مسائل پیش نہیں آتے۔ کبھی کبھی گانوں کے لیے نئی لکھی جانے والی شاعری میں بھی کافی مسئلے نظر آتے ہیں۔ میں نے سب سے پریشان کن مثال 10ویں سیزن میں دیکھی جب ایک نائب پروڈیوسر ہمارے پاس فارسی شاعری کا ایک بند لکھ کر لائے، جبکہ ان کو ذرا بھی فارسی نہیں آتی۔ میں بالکل ہی حیران تھی کہ وہ یہ اشعار کہاں سے ڈھونڈ کر لائے ہیں کیونکہ صرف و نحو اور معنی کے اعتبار سے ان کا بالکل ہی کوئی سر پیر نہ تھا۔ پتہ چلا کے وہ موصوف نے خود ہی لکھے تھے۔ شکر ہے کے 'اسٹرنگز' نے احتیاط برتتے ہوئے ان اشعار کو ریکارڈنگ سے پہلے ہی چیک کروا لیا۔ انہوں نے نائب پروڈیوسر کو بتا دیا کہ چاہے سامعین کی بیشتر تعداد صحیح اور غلط فارسی میں امتیاز نہ بھی کرسکتی ہو، وہ اسٹوڈیو میں ایسی فارسی شاعری کو بالکل استعمال نہیں ہونے دیں گے جس کا کوئی سر پیر اور سرے سے کوئی مطلب ہی نہ ہو۔

جہان تک میں نے دیکھا ہے، چاہے روحیل حیات پروڈیوسر ہوں یا پھر 'اسٹرنگز'، زبان کی سنگین غلطیاں کسی بھی پروڈیوسر کی سرپرستی میں ممکن ہیں کیونکہ پروگرام کی پروڈکشن کا فارمیٹ پروگرام کے معیار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہی گلوکار جو کوک اسٹوڈیو میں آکر بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے، ممکن ہے کہ وہ اپنی ایلبم پر وہی گانا بہتر انداز میں گا دے۔ جہاں ایک گلوکار اپنی ایلبم کے لیے ایک گانا بنانے میں پورا کا پورا مہینہ بھی لگاسکتا ہے وہیں کوک اسٹوڈیو میں ہر سال 3 سے 4 مہینوں کے اندر اندر 30 سے 25 گانے تیار کرکے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔

کوک اسٹوڈیو کسی میوزک کمپنی یا آرٹ اکیڈمی کے تعاون سے نہیں چلایا جا رہا بلکہ ایک کارپوریٹ ادارہ (یعنی کوکا کولا جو ایک مشروب بیچنے والی کمپنی ہے) پروگرام کو چلا رہا ہے۔ ان کی اشتہاروں کی ضروریات کے مطابق سب کام بڑی جلدی جلدی میں ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے کوتاہیوں اور غلطیوں کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔

نقوی: کیا آپ ہمارے لیے ایسی کچھ غلطیوں کی مثالیں پیش کرسکتی ہے؟

صابری: مثال کے طور پر سیزن 4 میں صنم ماروی کے گانے 'سگھڑا آویں سانول یار' کو لے لیجیے۔ گانے کی شروع میں ایک بہت مشہور و معروف شاعری کا ٹکڑا ہے جس کو پڑھنے میں صنم ماروی نے چند کافی بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں جن کو سامعین نے بھی نوٹ کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ انہوں نے 'نفی اثبات' (یعنی 'لا إلٰه إلا الله') کہنے کے بجائے 'نبی اثبات' کہہ دیا ہے، جس کا کوئی خاص مطلب نہیں نکلتا۔ 'نفی' کو 'نبی' کہنے سے مصرع بے معنی ہوجاتا ہے۔ غالباً مصرعے کا صحیح مطلب نہ سمجھنے کی وجہ سے صنم ماروی نے کنفیوز ہوکر ایسی غلطی کردی۔ لیکن ہم نے گانے کے کیپشن میں صحیح لفظ یعنی 'نفی اثبات' ہی رکھا ہے کیونکہ ہمارا مقصد لوگوں کو 'الف الله چمبے دی بوٹی' جیسے کلام سے صحیح طور پر متعارف کرانا ہے، غلط اطلاعات فراہم کرنا نہیں۔

پھر ہم میشا شفیع کی مثال کو لے سکتے ہیں۔ کم از کم 3 پنجابی گانوں میں انہوں نے اشعار کو مسخ کیا ہے۔ سیزن 3 میں ان کا ایک گانا ہے 'وے میں چوری چوری تیرے نال لا لیاں اکھاں'، اس گانے میں ایک جگہ میشا شفیع نے گایا ہے 'جس دا نہ اک پل وِر میری جان دا'۔ جب میں نے یہ سنا تو میں بالکل کنفیوز ہوکر رہ گئی کیونکہ پنجابی میں 'وِر' تو کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو پہچانا جاسکے۔ ہاں 'ویر' ایک لفظ ہے جس کے معنی 'بھائی' کے ہیں مگر 'وِر' کا مطلب کیا ہوا؟ لہٰذا میں نے ریشما کے اوریجنل گانے کو سنا۔ ظاہر ہوا کہ اصل مصرع یوں ہے: 'دسدا نہ ایک پل ویری میری جان دا'۔ مطلب صاف ہے: 'میرا محبوب مجھے اک پل کے لیے بھی نہیں دکھائی دیتا، وہ میری جان کا دشمن ہے'۔ اب 'وِر' کے برعکس، 'ویری' تو ہے ناں ایک اصل لفظ پنجابی میں۔ 'ویری' کو اردو میں کہتے ہیں 'بیری' یعنی کہ 'دشمن'۔ تو اس قسم کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جب کسی اصلی لفظ کے بجائے کوئی ایسا لفظ ادا کردیا جائے جو سرے سے لفظ ہے ہی نہیں۔

چوری چوری، میشا شفیع

پھر 7ویں سیزن میں میشا شفیع کا ایک اور گانا ہے 'سن وے بلوری اکھ والیا'۔ اس میں انہوں نے ایک جگہ لفظ 'سانہواں' کو غلطی سے 'راہواں' پڑھ دیا ہے۔ ملکۂ ترنم نور جہاں کے اوریجنل گانے کا مصرع یوں تھا 'ساںہواں وچ اگ جئی بلدی' جس کا مطلب ہے کہ 'میرے جذبات کی شدت اتنی ہے کہ جیسے میری سانسوں میں آگ لگی ہو'۔ لیکن جب آپ ایک اہم لفظ تبدیل کردیتے ہیں تو مطلب پھر یہ بنتا ہے: 'میرے جذبات کی شدت اتنی ہی کہ جیسے سڑکوں میں آگ لگی ہو‘۔ کتنا فرق ہے! جب میرے ایک پنجابی بولنے والے دوست نے میشا شفیع والا یہ ریمیک سنا تو وہ سوچ میں پڑگئے کہ سڑکوں پر آگ کیوں لگی ہوئی ہے؟ کیا کوئی ہڑتال ہے اور احتجاجی مظاہرین سڑکوں پر ٹائر جلا رہے ہیں؟

سن وے بلوری اکھ والیا، میشا شفیع

8ویں سیزن میں علی ظفر کا اک انتہائی حسین گانا ہے 'اجّ دن ویہڑے وچ'۔ گانے میں ایک مقام پر علی ظفر نے غالب کے کچھ اشعار سنائیں ہیں لیکن غلطی سے انہوں نے غالب کے ایک مصرع میں سے ایک پورا کا پورا لفظ غائب کردیا ہے۔ ظاہر ہے اس سے شعر کے معنی پر اثر پڑتا ہے۔ غالب کے یہ اشعار اتنے مشہور ہیں کہ زبان زدِ عام ہیں۔ لیکن ریہرسلز اور ریکارڈنگز کی گہما گہمی میں کسی طرح اس بات پر توجہ نہیں دی گئی اور یہ غلطی ہو گئی۔

اسی سیزن میں 'سیج' نامی اک بینڈ نے مشہور مارواڑی گانا 'کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی' گایا۔ گانے کی تقریباً ہر لائن مسخ کرکے پیش کی گئی اور اس بینڈ نے صحیح معنوں میں اس مارواڑی گانے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اگر آپ گانے کے آڈیو کا اس کے کیپشنز کے ساتھ موازنہ کریں، تو اکثر جگہ بڑا فرق پائیں گے۔ گلوکاروں نے اس قدر بے معنی الفاظ بڑبڑائیں ہیں کہ مارواڑی بولنے والے تو سمجھ ہی نہیں پائیں گے کہ کوک اسٹودیو والے گانے میں گایا کیا گیا ہے۔

خیر یہ کوک اسٹوڈیو میں کی گئی زبان کی غلطیوں میں سے چند سیدھی سادھی اور چیدہ چیدہ مثالیں ہیں تاکہ آپ سمجھ پائیں کہ غلطیوں کی نوعیت کیا تھی۔

نقوی: آپ کے خیال میں ہماری میوزک انڈسٹری پر اس قسم کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا کیا اثر پڑ رہا ہے؟

صابری: کچھ مہینے پہلے میں نے زریاب سلطان نامی ایک گلوکار کو ریڈیو پر 'تاجدارِ حرم' گاتے ہوئے سنا۔ میں ان کو بالکل نہیں جانتی اور نہ ہی اس سے پہلے میں نے کبھی ان کا نام سنا تھا۔ لیکن جس بات نے مجھے بہت بے چین کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے 'تاجدارِ حرم' کو گاتے ہوئے عاطف اسلم کی ایک ایک غلطی کی تقلید کی ہے۔ زریاب سلطان اس گانے کو گانے سے پہلے صابری برادران کی اُورِیجنل قوالی کو سن کر اس کے بول یاد کر سکتے تھے۔ یا پھر وہ کوک اسٹوڈیو کے کیپشنز کو بھی دیکھ کر صحیح بولوں کا پتا لگا سکتے تھے۔ لیکن نہیں۔ انہوں نے صرف اور صرف عاطف اسلم کا آڈیو سنا اور اس کو سند مانتے ہوئے ایک ایک غلطی رٹ لی اور پھر اسے ویسے ہی گایا جیسے عاطف اسلم نے مشہور کردیا ہے۔

اسی طرح 9ویں سیزن کے گانے 'آیا لاڑئیے نی تیرا سهریان والا ویاون آیا' میں بہت ساری ایسی غلطیاں ہیں جن کی طرف نائب پروڈیوسر شجاع حیدر کو گانے کی ریلیز سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی مختلف طریقوں سے متوجہ کیا گیا تھا۔ سامعین نے یوٹیوب پر بے تحاشا تبصرے لکھے تھے کہ گانے کے بولوں کو غلط پڑھا گیا ہے۔ سامعین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ گانے کے کیپشن صحیح ہیں لیکن نعیم عباس روفی اور میشا شفیع نے اسے گایا غلط ہے۔ لیکن شجاع حیدر صاحب کے کان پر جوں نہ رینگی اور جب کوک اسٹوڈیو والے گانے کو فلم 'جوانی پھر نہیں آنی' کے نئے سیکؤل میں نئے گلوکاروں سے یہی گانا دوبارہ گوایا گیا، تو وہی ساری غلطیاں ایک بار پھر دہرائی گئیں۔

آیا لاڑئیے

کوک اسٹوڈیو نے ایک ایسی روایت کو فروغ دیا ہے جس کے تحت نئے نئے گلوکار جنہیں کوک اسٹوڈیو کے پلیٹ فارم سے باہر اپنے کسی ذاتی اُورِیجنل گانے کے ذریعے شائقین کو متاثر کرنے میں خاصی مشکل کا سامنا ہے، دیگر فنکاروں کے پرانے پرانے ہِٹز گا کر اپنے لیے مقبولیت اور شہرت کا ذریعہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ جب دیگر لوگوں کے لکھے اور گائے ہوئے گانے ان کو اتنا کچھ دے رہے ہیں، تو کم از کم ان گلوکاروں کو چاہیے کہ وہ اسٹوڈیو میں ڈھنگ سے تیاری کرکے آئیں اور گانے کے بولوں کو صحیح طرح گا کر جائیں۔ بہت سارے آرٹسٹ بس اب پرانے گلوکاروں کی رکارڈنگز سے غلط سلط بول اتار کر گا دیتے ہیں جبکہ انہیں چاہیے کہ وہ صحیح علم رکھنے والے استادوں سے رجوع کریں اور ان سے گانوں کے بول سمجھ کر اور لکھوا کر یاد کریں تاکہ وہ ان بولوں کو درست تلفظ اور تاثرات کے ساتھ ادا کرسکیں۔

آج کل ہمارا معاشرہ ایک سنگین تعلیمی بحران کی گرفت میں ہے جس کے سبب چاہے شہر ہو یا گاؤں ہر جگہ کے نئے گلوکار زبان کی بڑی بڑی غلطیاں کر رہے ہیں۔ میں ایک طویل عرصے تک یہی سوچتی تھی کہ کوک اسٹوڈیو میں یہ معاشرتی مسائل صرف ظاہر ہوتے ہیں، کوک اسٹوڈیو خود ان مسائل کو جنم نہیں دیتا۔ لیکن اب مجھے لگنے لگا ہے کہ شاید کوک اسٹوڈیو ان مسائل کو پیدا کرنے اور بڑھانے میں بھی کردار ادا کر رہا ہے۔ جب زبان کی سنگین غلطیاں ملک کے سب سے بڑے اور بااثر میوزک پلیٹ فارم پر اس قدر باقاعدگی سے 'شوکیس' ہوں گی، تو پھر شاید یہ پلیٹ فارم ایسی غلطیاں کرنے کے رجحان کو فروغ دے رہا ہے۔ جب آپ اتنے بڑے قومی پلیٹ فارم سنبھال رہے ہوں تو آپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ آنے والی نسلیں اس ملک کی لوک اور کلاسیکی موسیقی سے کیا رشتہ قائم کریں گی، آپ کے کام کا اس پر گہرا اثر ہوگا۔

نقوی: کیا آپ اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ کوک اسٹوڈیو نے اس ملک کی موسیقی کو فروغ دینے میں اور ملک میں مختلف طبقوں کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے؟

صابری: جی، اس میں کوئی شک نہیں۔ روحیل حیات کی فنی قابلیت اور جمالیاتی وژن کی بنا پر یہ جو پلیٹ فورم وجود میں آیا، اس کے ذریعے دیسی گلوکاروں اور موسیقاروں کے لیے بہت سے نئے اور قیمتی فنی اور مالی مواقع پیدا ہوئے۔ جب پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے مشکل ترین اور سب سے غمناک دور سے گزر رہا تھا اس وقت کوک اسٹوڈیو نے پاکستان کے لیے ایک اہم سفارتی کردار بھی ادا کیا۔ اس نے بین الاقوامی اسٹیج پر پاکستان کی خوبصورت اور رنگارنگ ثقافت کو اجاگر کرنے میں بہت مدد کی۔ اس کے علاوہ خود پاکستانی قوم اپنے بارے میں جو تصور رکھتی ہے، اس کی تشکیل میں بھی کوک اسٹوڈیو کا بڑا کردار ہے۔ ملک کے طرح طرح کے گلوکار اور مختلف زبانوں کے ایک ہی پلیٹ فورم پر اکھٹا ہونے کی وجہ سے سامعین کو نئی تہذیبوں کے قریب آنے کا بھرپور موقع ملا۔ شاید پچھلے 10 سے 15 سالوں میں پاکستان اور ہندوستان کی موسیقی پر کسی چیز کا اتنا گہرا اثر نہ ہوا ہوگا جتنا کہ کوک اسٹوڈیو کا ہوا ہے۔ اس سے متاثر ہوکر مشرق وسطیٰ، ہندوستان اور افریقہ میں بھی اس طرز کے کوک اسٹوڈیو قائم کیے گئے۔

نقوی: آپ نے کوک اسٹوڈیو میں 10ویں تک کام کیا تھا۔ آپ کے خیال میں 11ویں سیزن میں کوک اسٹوڈیو کس سمت میں گیا ہے اور آپ نئے پروڈیوسروں کو پختہ شاعری والے گانے پروڈیوس کرنے کے حوالے سے کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟

صابری: ہر نیا پروڈیوسر اپنے ساتھ ایک منفرد 'ساؤنڈ' لاتا ہے اور میرے خیال میں علی حمزہ اور زوہیب قاضی کے ساؤنڈ میں بھی کچھ مزے کی چیزیں ہیں۔ ایک بات ضرور کہوں گی، علی حمزہ کوک اسٹوڈیو میں پہلے بھی کام کرتے رہے ہیں اور مجھے ان کے گانوں پر کام کرنے کا جو تجربہ ہوا ہے اس سے مجھے یہ لگتا ہے کہ وہ کچھ اچھے آئڈیاز لے کر آتے ہیں اور کچھ بڑی ہی دلکش دھنیں بھی بناتے ہیں لیکن گانے کو بہت اونچے معیار پر لے جانے کے لیے جتنی محنت درکار ہوتی ہے، اکثر اوقات وہ اتنی محنت نہیں کرتے۔ اس وجہ سے ایک گانا جو ہِٹ کلاسک بننے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ کھوکھلا سا اور قابلِ فراموش ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب علی حمزہ اپنے گانوں کی شاعری خود کرتے ہیں جو اکثر ہوتا ہے۔ ایسا تاثر ملتا ہے کہ گانے کی شاعری کا پہلا پہلا ڈرافٹ چلا دیا گیا ہے، اس پر پوری محنت کرکے ایک ڈھنگ کے قابلَ قبول معیار تک پہنچایا نہیں گیا۔ میرا مطلب ہے کہ 'من بولے تن ڈولے' قسم کے بول جو علی حمزہ بار بار لکھتے ہیں، ان کے کچھ خاص معنی نہیں نکلتے۔ ذرا بھی گہرائی نہیں ہوتی اور کچھ مدت کے بعد ایسی شاعری کافی بیزار کن لگنے لگتی ہے چاہے گانے کی دھن کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔

میرا خیال ہے کہ علی حمزہ کا کام بہترین تب ہوا ہے جب انہوں نے اور لوگوں کی شاعری کو استعمال کیا ہے۔ 9ویں سیزن میں ان کا گانا 'پار چناں دے' بہت ہی خوبصورت اور نفیس ہے۔ یہ گانا ایک موجودہ لوک کلاسک کا ری میک ہے۔ پھر انہوں نے زیب بنگش اور اپنے بھائی علی نور کے ساتھ اُسی سیزن میں ایک اور گانا کیا تھا جس کا نام تھا 'آجا رے مورے سیاں'۔ میری نظر میں اس کا شمار کوک اسٹوڈیو کی پوری تاریخ میں سب سے بہترین اوریجنل گانوں میں ہوتا ہے۔ اس گانے کی بنیاد مشہور شاعرہ زہرا نگاہ کے لکھے ہوئے بولوں پر رکھی گئی ہے اور گانے کی دھن نے شاعری کے تاثرات کی بہت اچھی طرح عکاسی کی ہے۔

کوک اسٹوڈیو کے نئے پروڈیوسروں کو چاہیے کہ وہ شاعری کے معاملے میں 'شارٹ کٹ' لینے سے گریز کریں، نئے گانوں کے لیے اچھی اور معیاری شاعری تلاش کریں اور نئے گلوکاروں کو بھی یہی مشورہ دیں۔ 'وائٹل سائنز' اپنے زیادہ تر گانوں کے بول خود ہی نہیں لکھتے تھے بلکہ شعیب منصور جیسے بلند پائے کے غنائی شاعر سے لکھواتے تھے۔ اسی لیے ان کے گانوں کو اتنی کامیابی اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کے تقریباً سب گانے آج کلاسکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا روحیل حیات کو 'وائٹل سائنز' کے دنوں سے ہی اپنی ذاتی موسیقی میں اچھی اور معنی خیز شاعری کو ترجیح دینے کی عادت رہی ہے۔ اسی طرح 'اسٹرنگز' نے بھی اپنے ذاتی گانوں میں شاعری کے معیار کو مقدم رکھا ہے۔ انہوں نے انور مقصود جیسے منجھے ہوئے ادیب کی شاعری اپنے گانوں میں اکثر استعمال کی ہے اور 'اسٹرنگز' کے رکن بلال مقصود خود بھی اپنے گانوں کے لیے نفیس اور معنی خیز اردو شاعری لکھتے ہیں۔

کچھ سالوں سے کوک اسٹوڈیو میں نئی شاعری کا معیار تیزی سے گھٹ رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ پروگرام میں خالص تجارتی ذہن رکھنے والے کچھ نائب پروڈیوسرز کی شمولیت ہے جس کے نتیجے میں ہمیں 'صوفی میوزک' کے نام پر کچھ گانوں میں ایک مصنوعی طرز کی عقیدت مندی بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ پست درجے کی نام نہاد رومانوی شاعری بھی سننے میں آ رہی ہے جیسے کہ 11ویں سیزن میں شجاع حیدر کا گانا 'آتش' جس میں 'فیض کی عرضیاں، ہیر کی من مرضیاں' جیسے پست درجے کے با تحاشا بول موجود ہیں۔ ایسے گانوں میں بولی وڈ کے بگڑتے رجحانات کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے۔

پار چناں دے، علی حمزہ

یہ بات سچ ہے کہ آج کل کے بولی وڈ گانے بہت چلتے ہیں اور بہت بکتے بھی ہیں۔ لیکن فنی اور ادبی اعتبار سے ان کی کوئی خاص قدر نہیں۔ کوک اسٹوڈیو کی ایک مختلف تاریخ رہی ہے۔ پاکستانیوں نے کوک اسٹوڈیو کو اس لیے پسند کیا کہ یہ بولی وڈ سے مختلف تھا۔ اس کے گانے با معنی تھے اور نہ صرف دل پر بلکہ ذہن اور روح پر بھی اثر کرتے تھے۔ کوک اسٹوڈیو کے کروڑوں ہندوستانی شائقین کو بھی کوک اسٹوڈیو کی یہی بات پسند آئی کہ اس کے گانے بولی وڈ کے گانوں سے مختلف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے اپنے بالی وڈ نے ہندوستان میں اس قدر مقبولیت نہیں پائی۔ شائقین کو محسوس ہوا کے ہندوستانی کوک اسٹوڈیو ابھی تک اس قدر کامیابی سے بولی وڈ کے ساؤنڈ سے فاصلہ اختیار نہیں کرسکا۔ پاکستان میں ہمارے کوک اسٹوڈیو کی ایک بہت بڑی قوت ہماری شاعری کا بلند معیار تھا۔ اگر وہ معیار تیزی سے گرتا جائے گا، تو کچھ بعید نہیں کہ ہم بھی بولی وڈ کی طرح بے معنی اور کھوکھلے 'ڈانس میوزک' کے علاوہ کچھ اور نہ بنا سکیں گے۔

ہمارے نوجوان گلوکاروں کو ایک ہی قسم کے گھسے پٹے گانے بنانے کے بجائے اعلیٰ پائے کے غنائی شاعروں کے ساتھ تعاون کرکے اپنے گانوں میں گہرائی اور انفرادیت پیدا کرنی چاہیے۔ ہم نے ماضی میں کوک اسٹوڈیو میں نوجوان گلوکاروں میں کچھ نئے اور اچھے کام کی مثالیں دیکھی ہیں۔ 7ویں سیزن میں عباس علی خان نے اپنے گانے 'مجھے بار بار صدا نہ دے' میں حالیہ دور کے ایک عارفانہ شاعر کے کلام کا بخوبی استعمال کیا۔ اسرار کا 'سب آکھو علی علی' اور محسن عباس حیدر کا 'اڈی جا' جدید دُور میں روایتی انداز کی نئی اور معیاری شاعری کی 2 بہت ہی اچھی مثالیں ہیں۔

ہمیں کوک اسٹوڈیو میں کچھ غیر روایتی طرز کی نئی اور معیاری شاعری کی بھی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ بلال خان نے جو اپنے گانوں کے لیے شاعری کی، جعفر زیدی نے جو اپنے بینڈ کاوش کے گانوں کے لیے شاعری کی اور پاکستانی امریکی گلوکار بوہیمیا نے جو اپنے گانوں کے لیے شاعری کی، یہ پر معنی بھی تھی اور جدت اور انفرادیت کی حامل بھی۔ تاہم خوش قسمتی سے کچھ نوجوان ابھی بھی معنی خیز شاعری کر رہے ہیں، لیکن ان کی تعداد اتنی نہیں جتنی ملک کے سب سے بڑے میوزک پلیٹ فورم پر ہونی چاہیے۔

اڈی جا، محسن عباس حیدر

ایک چیز جس نے مجھے 11ویں سیزن کے بارے میں ضرور پریشان کیا ہے وہ یہ ہے کہ اسٹوڈیو والوں نے فارسی، سرائیکی اور پنجابی جیسی زبانوں کے رسم الخط گانوں کے کیپشنز میں پیش کرتے ہوئے ناقص اور مصنوعی انداز سے لفظوں کے ہجے کیے ہیں۔ پروڈیوسروں کو اس بات سے آگاہ بھی کیا گیا تھا اور انہیں اس بات کا پورا علم تھا لیکن پھر بھی ایسا کیا گیا۔ سیدھا سا معاملہ ہے۔ اگر آپ کے پاس مقامی زبانوں کے لفظوں کے ہجوں کی تصدیق کروانے کے پیسے نہیں ہیں، تو پھر آپ کو چاہیے کہ صرف انگریزی ترجمہ شائع کریں۔ شاعری کو اس کی زبان کے اصلی رسم الخط میں یا تو صحیح انداز میں لکھنا چاہیے یا پھر لکھنا ہی نہیں چاہیے۔ جان بوجھ کر ملک کے اتنے بڑے پلیٹ فورم سے سائبر اسفیر کو غلط سلط ہجوں سے بھرنے کا کیا فائدہ؟ یہ تو کسی طرح ہماری دیسی زبانوں کی خدمت نہ ہوئی۔

آخر میں یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ کوک اسٹوڈیو سے ہماری میوزک انڈسٹری کو جو فوائد اور ترقی حاصل ہونی تھی، وہ اب کافی حد تک ہوچکی ہے۔ انڈسٹری کے لیے ایک انتہائی مشکل دور میں نئی نسل میں روایتی اور لوک موسیقی کے نئے شائقین پیدا کیے جاچکے ہیں۔ اب شاید وقت آگیا ہے کہ آئیس کریم اور کولڈ ڈرنک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے علاوہ بھی کوئی پلیٹ فورم ہماری میوزک انڈسٹری میں نمایاں کردار ادا کرے اور فیوژن میوزک کو بھی فروغ دے اور ایسی روایتی موسیقی کو بھی جو فیوژن نہیں ہے۔

پورا انٹرویو یہاں پڑھا جاسکتا ہے۔


انگلش میں پڑھیں۔


احمر نقوی تیلی کے کری ایٹو ہیڈ ہیں۔ اس سے پہلے وہ میوزک پلیٹ فورم پٹاری کے سی او او رہ چکے ہیں اور گزشتہ 10 برسوں سے موسیقی، کرکٹ اور پاپ کلچر کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔

زہرا صابری کوک اسٹوڈیو کے 9 سیزنز کے گانوں کی لوک اور کلاسیکی شاعری کی ترجمہ نگاری کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مک گل یونیورسٹی کے شبعہ اسلامک اسٹیڈیز میں مغلیہ تاریخ اور انڈو مسلم ادب کی ڈاکٹرل طالبہ ہیں اور آغا خان یونیورسٹی اور جامعہ کراچی کے شعبہ پاکستان اسٹڈی میں تاریخ اور اردو ادب پڑھا چکی ہیں۔ ان کی جانب سے کوک اسٹوڈیو کے لیے کیے گئے تراجم یہاں پڑھے جاسکتے ہیں۔

زہرا صابری

لکھاری کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں مغل تاریخ پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
احمر نقوی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔