عمران خان کہیں بینظیر بھٹو والی غلطی تو نہیں کر بیٹھے؟

100 دن کے گھوڑے پر فراٹے مارتی تحریکِ انصاف کی قیادت بالخصوص اس کے قائد محترم وزیرِاعظم عمران خان کہیں اپنی حکومت کے 200 یا 400 دنوں بعد اس تاسف کا اظہار تو نہیں کر رہے ہوں گے کہ انہوں نے بھی وہی غلطی کی جو 3 دہائیوں قبل 10 سال کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ’اختیارات‘ لے کر پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو نے کی تھی۔
جنرل ضیاءالحق کی 10 سالہ فوجی آمریت کے بعد آنے والی بینظیر بھٹو اور 2 دہائیوں سے زرداریوں اور شریفوں کی حکومت سے لڑتے لڑتے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملنے والے اقتدار کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اکثر بلکہ بیشتر باتوں میں بڑی مماثلت ملے گی۔
نومبر 1988ء میں پیپلزپارٹی کی قائد قومی اسمبلی کی 205 نشستوں میں سے محض 94 نشستیں حاصل کرسکی تھیں۔ سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے انہیں مزید 9 ارکان کی ضرورت تھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے ایوانِ اقتدار کی غلام گردشوں میں کھیل کھیلنے والے صدر غلام اسحاق ہماری اُس وقت کی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سرخیل تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی، یوں سارے پتے صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھ میں تھے، اور اقتدار کے 2 بڑے ستون یعنی عدلیہ اور فوج بھی ان کے دائیں اور بائیں کھڑے تھے۔
یہ درست ہے کہ اس وقت نوجوان بھٹو پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں بھی اپنی جدوجہد اور قربانیوں کے سبب مقبولیت کی آخری حدوں کو چھورہی تھیں، یوں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے محترمہ کے مقابل منتشر اپوزیشن کو ترجیح دینا، اتنا آسان نہیں تھا۔ مگر مسئلہ ’بھروسے‘ کا بھی تھا۔ بھٹوز اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کا پاٹنا اک آگ کے دریا سے گزرنا تھا۔
بینظیر پر ایک بڑا دباؤ برسوں سے تھانے، عدالتیں بھگتنے اور کوڑے کھانے والے جیالوں کا تھا، سو مجبوری دونوں کی تھی۔ مگر بہرحال فوقیت اسٹیبلشمنٹ کو حاصل تھی۔ بھارت کے ممتاز صحافی کرن تھاپر اپنی کتاب Devil's Advocate میں لکھتے ہیں کہ ’لندن میں اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ نومبر 1988ء میں اختیارات کے بغیر اقتدار لینا ان کی غلطی تھی۔‘
یہ بات ٹھیک بھی تھی ک غلام اسحاق خان جیسے صدر مملکت، وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان، اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کس طرح ’روٹی کپڑا اور مکان‘ عوام کو دیا جاسکتا تھا۔ اس پر اربوں روپے کے وسائل سے مالامال پنجاب کی نمائندہ ’جاگ پنجابی جاگ‘ کا نعرہ لگاتی شریفوں کی بپھرتی اپوزیشن۔
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔