لاہور کی احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر قومی احتساب بیورو (نیب) نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا۔
احتساب عدالت میں پیشی کے دوران وکلا کو کمرہ عدالت میں جانے سے روکا گیا، جس پر پولیس اور وکلا میں تکرار ہوئی اور وکلا نے کمرہ عدالت کے باہر سخت نعرے بازی کی۔
اس موقع پر شہباز شریف نے کمرہ عدالت کی کھڑی سے ہاتھ جوڑ کر وکلا کو خاموش رہنے کی ہدایت کی۔
بعد ازاں احتساب عدالت کے جج سید نجم الحسن کیس کی سماعت کی، جہاں نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے شہباز شریف کے 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
اس پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جہاں تک میرے موکل کی ذات کا تعلق ہے تو 2011 سے 2017 تک کا ریکارڈ ٹیکس ریٹرن میں شامل ہے اور ہر چیز واضح ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ریکارڈ بھی ٹیکس میں ہے اور نیب نے عدالت سے غلط بیانی کرکے پچھلا ریمانڈ لیا تھا۔
وکیل نے کہا کہ ٹیکس قوانین میں تحائف کا ذکر کرنا ضروری نہیں تھا، ذاتی 20 کروڑ کی اراضی کی رقم سے تحائف دیے اور تحائف آمدنی سے زائد نہیں ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان کے قانون کے تحت اپنے اکاؤنٹ سے رقم نکلوانا جرم نہیں ہے، جو بھی تمام رقم نکلوائی وہ شہباز شریف نے اپنے اکاؤنٹ سے نکلوائی۔
امجد پرویز نے بتایا کہ رمضان شوگر ملز سے شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں، یہ میرے بیٹے کی ملکیت ہے، شہباز شریف سیاست میں ہیں، وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں، اس لیے الزام لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے آمدن سے زائد اخراجات کہیں نظر نہیں آئے، اگر ٹیکس ریٹرن سے رقم زیادہ ہوتی تو جرم تھا۔
شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ آشیانہ ہاؤسنگ کے ٹھیکے کی منسوخی کی بات ہے تو سب کچھ سامنے آ چکا ہے، اس کیس میں میں سارے مفروضے ہیں، لہٰذا مزید جسمانی ریمانڈ نہ دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ کی نیب کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
ساتھ ہی عدالت نے 13 دسمبر کو دوبارہ شہباز شریف کو عدالت پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔
نیب کی تفتیشی رپورٹ
بعد ازاں نیب کی جانب سے شہباز شریف کی اب تک کی تفتیشی رپورٹ پیش کی گئی۔
نیب کی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف اب تک اپنے بیٹوں کو دیے گئے تحائف کی مد میں 17 کروڑ روپے سے زائد آمدن کے ذرائع نہیں بتا سکے۔
رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کے اکاونٹ میں 2011سے 2017 کے دوران 14 کروڑ روپے سے زائد منتقل ہوئے لیکن وہ اس آمدن کے ذرائع نہیں بتا سکے۔
تفتیشی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ انہوں نے 2 کروڑ روپے سے زائد کی رقم بطور کرایہ رمضان شوگر مل کے توسط سے مری میں ایک جائیداد کی لیز کے طور پر حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں مصرور انور نامی شخص کے ذریعے 2014 سے 2017 کے درمیان 5کروڑ 50 لاکھ روپے منتقل ہوئے اور شہباز شریف اس رقم کی ٹرانزیکشن کے حوالے سے بھی نیب کو جواب نہ دے سکے۔
نیب رپورٹ میں بتایا گیا کہ 5کروڑ کی اس ٹرانزیکشن میں سے 3 کروڑ 90 لاکھ روپے 2013 سے 2015 کے درمیان شہباز شریف کے اکاونٹ میں منتقل ہوئے اور اس وقت وقت آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کے ٹھیکے کا عمل چل رہا تھا۔
تفتیشی رپورٹ کے مطابق مصرور انور اور مزمل رضا شریف خاندان کے ملازم ہیں جو کہ اس دوران متعدد مرتبہ شریف خاندان کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرتے رہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مصرور انور اور مزمل رضا نے 2010 سے 2017 کے دوران ملک مقصود احمد کے اکاؤنٹ میں 3 ارب 40 کروڑ روپے منتقل کیے جبکہ شہباز شریف نے دوران تفتیش مصرورانور اور ملک مقصود احمد کو پہنچاننے سے انکار کردیا۔
نیب رپورٹ کے مطابق ملک مقصود احمد کے بینک ریکارڈ کے مطابق ان کا دفتری پتہ اور ٹیلی فون نمبر بالکل وہی ہیں، جو شہباز شریف کا دفتری پتہ اور ٹیلی فون نمبر ہے۔
تفتیشی رپورٹ کے مطابق نیب لاہور نے ملک مقصود احمد، مصرور انور، فضل داد عباسی کو ان مشکوک ٹرانزیکشن کی پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا۔
پولیس اور لیگی کارکنوں میں تصادم
قبل ازیں شہباز شریف کی عدالت پیشی کے موقع پر عدالت پہنچنے کی کوشش کرنے والے لیگی کارکنوں اور پولیس کے درمیان دھکم پیل ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے تصادم کی شکل اختیار کرگئی۔