تھر میں غذائی قلت، مزید 6 بچے جاں بحق
مٹھی: سندھ کے صحرائی ضلع تھر میں غذائی قلت، پانی کی کمی اور صحت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے مزید 6 بچے جاں بحق ہوگئے۔
جاں بحق ہونے والے تمام 6 بچے مٹھی کے سول ہسپتال میں زیرِ علاج تھے جنہیں تھر کے دو دراز کے علاقوں سے علاج کے لیے یہاں منتقل کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ 3 روز کے دوران اس علاقے کے13 بچے بیماریوں اور انفیکشن کے باعث ہسپتال میں اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔
آج (منگل کو) جاں بحق ہونے والے بچوں کے والدین نے مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان بچوں کو آلودہ پانی پینے اور خراب غذا کی وجہ سے بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: ’تھر کے عوام قحط سے بچنا چاہتے ہیں تو بچے کم پیدا کریں‘
شعبہ صحت کے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ اب تک صوبے میں گزشتہ 11 ماہ کے دوران 6 سو ایک بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔
ہسپتال آنے والے والدین بتاتے ہیں وہ لوگ کنویں کا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے وہ لوگ بالخصوص ان کے بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
غذا اور صحت کے ماہرین نے حکومت سندھ کے متعلقہ شعبے پر زور دیا ہے کہ بچوں کی اموات کو روکنے کے لیے پالیسی بنائے جائے اور کوئی طویل مدتی منصوبہ لایا جائے۔
خیال رہے کہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں صحت کی صورتحال ابتر ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کو خوراک اور پانی کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تھر، غذائی قلت اور وائرل انفکیشن سے مزید8 بچے جاں بحق
مذکورہ عناصر کی وجہ سے ہی تھر کے دور دراز کے علاقوں میں اکثر بچے جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
ان میں سے اکثر والدین بچوں کو قریبی ہسپتال یا پھر صحت کے مراکز میں علاج معالجے کے لیے لے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی اکثر بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل : پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں نے تھر کے لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ علاقے میں پانی اور خوراک کی کمی کے چیلنجز کو پورا کرنے کے لیے خود اپنی مدد کرتے ہوئے اپنی آبادی پر قابو پائیں اور کم بچے پیدا کریں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ سال اپریل میں مٹھی میں 5 بچوں کی ہلاکت پر ازخود نوٹس کے بعد محکمہ صحت کے مقامی عہدیداروں کو اس حوالے سے میڈیا کو تفصیلات جاری نہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
تھر میں بچوں کی صحت اور غذا کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ہینڈز کے سربراہ ڈاکٹر شیخ تنویر احمد سمیت ماہرین صحت اور بچوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تھر میں کم عمری میں شادی، بچوں کی غذائی قلت، غربت اور دیگر مسائل نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کے اسباب ہیں۔