پاکستان

2008 میں قتل کا مقدمہ، عدالت نے عمر قید کے مجرمان کو بری کردیا

عمر قید کی سزا کاٹنے والے دونوں قیدیوں پر سکندر حیات کو قتل کرنے کا الزام تھا, ایڈیشنل سیشن جج نے سزا سنائی تھی۔
|

لاہور ہائیکورٹ نے 2008 میں درج ہونے والے قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ عمر قید کے 2 مجرموں کو بری کردیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس سرفراز ڈوگر نے عمر قید کے قیدیوں خالد حسین اور محمد طارق کی اپیل پر سماعت کی۔

مجرمان کی جانب سے ایڈووکیٹ ناصر ٹوانہ نے دلائل دیے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: قتل کے 2 ملزمان 12 سال بعد بری

عدالت عالیہ نے ناکافی شواہد اور اپیل کنندہ کے وکیل کے دلائل کی روشنی میں مجرمان کو بری کیا۔

خیال رہے کہ دونوں کے خلاف تھانہ نور پور میں 2008 میں قتل کا مقدمہ درج ہوا تھا۔

عمر قید کی سزا کاٹنے والے دونوں قیدیوں پر سکندر حیات کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج نے ٹرائل کے اختتام پر دونوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

واضح رہے کہ طویل عرصے سے قید ملزمان کی رہائی کا یہ پہلا معاملہ نہیں بلکہ اس سے قبل مختلف مقدمات میں بے گناہوں کی کئی سال سزا بھگتنے کے بعد رہائی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

یکم اکتوبر کو سپریم کورٹ نے عدم شواہد کی بنیاد پر قتل کے 2 ملزمان کو 12 سال بعد بری کرنے کا حکم سنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 19 سال بعد بَری ہونے والا ملزم 2 سال قبل فوت

ایسے ہی ایک کیس میں قتل کے الزام میں 19 سال سے قید مظہر حسین کو جب عدالت سے رہائی کا پروانہ ملا تو علم ہوا کہ اس کا 2 سال قبل ہی انتقال ہوچکا ہے۔

ایک اور مقدمے میں 1992 سے قید مظہر فاروق نامی شخص کو ناکافی شواہد کی بنا پر 24 سال بعد 2016 میں بری کیا گیا تھا۔

رواں برس اپریل میں والد والدہ اور بھائی کے تہرے قتل کے الزام میں سینٹرل جیل کراچی میں قید عاصمہ نواب کو 20 سال بعد سپریم کورٹ نے ناکافی شواہد کی بنا پر رہا کیا تھا جنہیں 1998 میں گرفتار کیا گیا تھا۔