پاکستان

وزیراعظم کے معاملے کی وجہ سے ریگولرائزیشن تاخیر کا شکار ہے، چیف جسٹس

ریگولرائزیشن عمران خان کی نشاندہی پر شروع کی گئی، بنی گالا میں غیرقانونی تعمیرات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس کے ریمارکس
|

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بنی گالا میں غیرقانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ریگولرائزیشن اس لیے تاخیر کا شکار ہے کہ اس میں وزیراعظم کا معاملہ بھی ہے۔

سپریم کورٹ میں بنی گالا میں غیرقانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بابر اعوان کہاں ہیں، میرا خیال ہے کہ انہوں نے التوا کی درخواست بھجوائی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریگولرائزیشن عمران خان کی نشاندہی پر شروع کی گئی۔

چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ 100 سے زیادہ ریگولرائزیشن کی درخواستیں آچکی ہیں اور سی ڈی اے نے سپلیمنٹری رپورٹ فائل کی ہے۔

مزید پڑھیں: بنی گالا کیس: عمران خان سب سے پہلے ریگولرائزیشن کرائیں، چیف جسٹس

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس رپورٹ میں ریگولرائزیشن سے متعلق سفارشات ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لیک ویوپارک میں تفریحی کمپنیوں کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معائنہ کرنا تھا،معلوم ہوا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عہدہ چھوڑ چکے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سیدھی اور سچی بات کرتے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریگولرائزیشن اس لیے تاخیر کا شکار ہے کہ اس میں وزیراعظم کا معاملہ بھی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریگولرائزیشن کے بغیر ہاؤسنگ سوسائٹی کو اجازت نہیں دیں گے، وہاں بجلی اور گیس لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل کی وہاں 100 کنال اراضی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 100 کنال زمین کا مطلب یہ نہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹی بنائیں، آپ کو ماحولیات اور دیگر اداروں سے اجازت لینا ہوگی۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ اس معاملے پر اب ایسا کچھ رہ نہیں گیا، معاملہ نمٹا سکتے ہیں، سی ڈی اے بتائے زون 4 کی کیا صورتحال ہے؟

چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ زون 4 کو چار حصوں میں تقسیم کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیکھیں ہاؤسنگ سوسائٹی کس حصے میں آتی ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنی گالہ کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو گیا ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مختلف طریقوں سے ریگولرائزیشن کے مسائل حل ہوسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنی گالہ کا بہت رومانس تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان کا گھر پہلے ریگولرائز ہوگا تو باقی بھی ہوں گے‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ معاملے پر توجہ دلانے والے بابر اعوان نے اب التوا کی درخواست کردی ہے۔

نجی زمین کے مالک کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ریگولرائزیشن کے لیے کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم جو پالیسی بنائے، اسے ماسٹر پلان سے مشروط کر دیں۔

ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ بوٹینکل گارڈن کی کچھ زمین حاصل کی جا چکی ہے، کچھ باقی ہے، 7 میں سے 2 افراد سے زمین واگزار کرالی ہے۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ پولیس کو ساتھ لے جا کر زمین واگزار کروائیں، بوٹینیکل گارڈن کی ساری زمین آج ہی واگزار کرائیں، اتنی بڑی زمینوں پر قبضہ مافیا بدمعاشی سے بیٹھا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریگولرائزیشن سی ڈی اے کا کام ہے وہی اسے انجام دے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے بوٹینکل گارڈن کی اراضی ایک ہفتے میں واگزار کرانے کا حکم دے دیا، جس کے بعد بنی گالہ تعمیرات سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔

16 اکتوبر 2018 کو چیف جسٹس نے بنی گالہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ وزیرِاعظم عمران خان کا گھر پہلے ریگولرائز ہونا چاہیے، اس کے بعد ہی دیگر گھر ریگولرائز ہوجائیں گے۔

اس سے قبل یکم اکتوبر کو سپریم کورٹ نے بنی گالہ میں تجاوزات سے متعلق کیس میں سروے آف پاکستان کی رپورٹ کی روشنی میں کورنگ نالے کے اطراف قائم تجاوزات گرانے کا حکم دیا تھا۔

بنی گالا تجاوزات کیس کی تفصیل

بنی گالا اسلام آباد کا ایک علاقہ ہے جہاں تجاوزات کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے، تاہم 13 فروری کو سپریم کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو بنی گالا میں تعمیر اپنی 300 کنال کی رہائش گاہ کا منظور شدہ سائٹ پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم عمران خان کے وکیل کی جانب سے دستاویزات جمع کرانے کے بعد 22 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ بنی گالا میں عمران خان کے گھر کی تعمیر کا سائٹ پلان منظور شدہ نہیں۔

28 فروری کو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے عمران خان کے بنی گالہ میں قائم گھر کی تعمیرات کے معاملے پر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس کے مطابق سابق سیکریٹری یونین کونسل (یو سی) نے بنی گالا گھر کے این او سی کو جعلی قرار دیا تھا۔

6 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ہماری نظر میں عمران خان کی رہائش گاہ غیر قانونی ہے۔

مزید پڑھیں: بنی گالا تجاوزات کیس: ’عمران خان کی حکومت آنے والی ہے،خود مسئلہ حل کریں‘

27 مارچ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بنی گالہ تعمیرات کیس میں آئندہ سماعت تک راول جھیل کی دیکھ بھال سمیت تمام مسائل کا حل اور اس حوالے سے تجاویز طلب کی تھیں جبکہ لیز پر لی گئی 11 زمینوں کے مالکان کو نوٹسز بھی جاری کر دیے تھے۔

خیال رہے کہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق نیشنل پارک کی تجویز 1960 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھی، جو یونانی آرکیٹیکچر کانسٹینٹ تینس اپوستولس ڈوکسڈز نے دی تھی، اس تجویز کے تحت آج جس جگہ بنی گالا واقع ہے، وہیں ایک بہت بڑا درختوں سے بھرا پارک بنایا جانا تھا۔

بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ بنی گالا عمران خان اور عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگوں کی رہائش گاہ بننے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے لیے مجوزہ نیشنل پارک کے لیے مختص کی جانے والی جگہ ہے۔