’تھکیں جو پاؤں، تو چل سر کے بل'
میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ جب میں 15 سال کی تھی تو میری پھپھو کا انتقال ہوگیا۔ پھوپھا جان دوسری شادی کرنا چاہتے تھے، لہٰذا ابو نے اپنے بھانجے فراز کی ذمہ داری اٹھالی اور وہ ہمارے گھر شفٹ ہوگیا۔
میٹرک کرنے کے بعد میں نے امی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا لیکن ابو کی خواہش تھی کہ میں مزید پڑھوں۔ کالج کی دنیا بڑی ہی رنگین تھی۔ شوخ چنچل لڑکیاں اور ان کی شرارتیں، ادائیں اور قہقہے۔ میں تو بہت خاموش طبع تھی۔ پڑھائی میں بھی درمیانے درجے کی طالبہ تھی۔ کم گوئی کی وجہ سے میری کوئی کلوز فرینڈ نہ بن سکی، لیکن تمام کلاس فیلوز سے میرے اچھے تعلقات تھے۔
پڑھائی کے علاوہ دیگر ایشوز پر زیادہ باتیں ہوتی تھیں۔ فلمیں، ڈرامے، فیشن، میک اپ اور کزنز سے عشق۔ ہر لڑکی کا اپنے کسی نہ کسی کزن سے معاشقہ چل رہا تھا۔ عشقیہ اشعار، محبت نامے، سرخ گلابوں اور تحفوں کا تبادلہ۔ میں ہر کسی کی بات حسرت سے سنا کرتی تھی کیونکہ پوری کلاس میں شاید میں واحد لڑکی تھی جس کا کوئی کزن اس میں انوالو نہیں تھا۔