پاکستان

آئین کی خلاف ورزی: 56 کمپنیوں کے معاملات حل کرنے کیلئے حکومت کو ڈیڈ لائن

عدالت 56 کمنپیوں کے فعال ہونے سے متعلق فیصلہ حکومتی رپورٹ کی روشنی میں کرے گی، جسٹس شاہد کریم
|

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پنجاب حکومت اور میاں محمود الرشید کو 56 کمپنیوں کے فعال ہونے کا مسئلہ صوبائی کابینہ کے سامنے اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے 7 دسمبر تک رپورٹ جمع کروانے کی ڈیڈ لائن دے دی۔

جسٹس شاہد کریم نے 56 کمپنیوں میں غیر قانونی بھرتیوں اور ان کے آئین سے مترادف کام کرنے سے متعلق میاں محمود الرشید کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما میاں محمود الرشید کی جانب سے ان کے وکیل شیراز ذکا عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل شیراز ذکا نے اپنے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ 56 کمپنیاں آئین کے آرٹیکل 140 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کام کر رہی ہیں، جبکہ بلدیاتی حکومت کے کام پر اثر انداز بھی ہورہی ہیں۔

مزید پڑھیں: نیب کا 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ

انہوں نے مزید کہا کہ ان کمپنیوں میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کی گئیں جو پبلک سیکٹر کمپنیز رولز 2013 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی رہنما کو ہدایت جاری کی کہ وہ اس معاملے کو صوبائی کابینہ کے سامنے اٹھائیں اور 7 دسمبر تک اس کی رپورٹ پیش کریں۔

جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ عدالت عالیہ ان کمنپیوں کے فعال ہونے سے متعلق فیصلہ حکومتی رپورٹ کی روشنی میں کرے گی۔

56 پبلک سیکٹر کمپنی کیس

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے میاں محمود الرشید کی جانب سے 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی انتظامیہ نے 9 سال قبل ’’گڈ گورننس‘‘ کے بہانے 56 پبلک سیکٹر کمپنیاں قائم کی تھیں، جس پر قومی خزانے سے 150 ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے تھے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ یہ گورنس کا ماڈل شہباز شریف کی سوچ تھی، جو ترکی ماڈل سے متاثر ہوکر اسے یہاں لانا چاہتے تھے، یہی وجہ تھی کہ مختلف کمپنیوں میں ترکی کے لوگوں کو کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا اور اب یہ لوگ مختلف میگا پروجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن: شہباز شریف سپریم کورٹ میں پیش

درخواست گزار نے بتایا کہ یہ تمام پبلک سیکٹر کمپنیاں اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہیں، جبکہ 2016 میں ان کمپنیوں کی تعداد 6 سے بڑھا کر 56 کردی گئی۔

میاں محمود الرشید کی درخواست میں بتایا گیا تھا کہ ان کمپنیوں کے اخراجات 250 ارب روپے تھے لیکن آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے کارکردگی کے آڈٹ کے علاوہ ان کمپنیوں کی جانب سے کبھی آڈٹ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے الزام لگایا تھا کہ کمپنیوں کے حکام کی بڑی تنخواہوں اور مراعات کے باوجود ان کمپنیوں نے کبھی اپنی سالانہ آڈٹ رپورٹ بھی شائع نہیں کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی شہباز شریف انتظامیہ کی جانب سے قائم 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے مبینہ کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام کی مکمل تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔