ٹی وی پر پُرتشدد مناظر کے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

جنوری 2007ء میں 10 سالہ سرجیو پلیکو نے امریکی شہر ہاسٹن میں صدام حسین کی پھانسی کی ویڈیو دیکھنے کے بعد خود کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق بچے نے یہ سوال کیا تھا کہ ’کیا اس طرح وہ لوگوں کو مارتے ہیں؟‘ جس پر اہل خانہ نے جواب دیا کہ ’نہیں، لیکن چونکہ یہ آدمی بُرا تھا اس لیے اس کے ساتھ ایسا کیا گیا۔‘
لیکن یہ عمل دہرانے والا صرف پلیکو ہی نہیں بلکہ صدام حسین کی پھانسی کے بعد اطلاعات کے مطابق دنیا بھر میں ایک ہفتے کے اندر کم از کم 7 بچوں نے خود کو مار دیا تھا۔ ان میں 9 سالہ مبشر علی بھی تھا جس نے رحیم یار خان میں صدام حسین کی موت کی نقل کرنے کی خاطر اپنی 10 سالہ بہن کی مدد سے خود کو پنکھے سے لٹکا کر مار دیا تھا۔ علی کے والد کا کہنا تھا کہ بچوں نے ٹی وی پر وہ ویڈیو دیکھی تھی اور اس میں دکھائے گئے پھانسی کے منظر کو نقل کرنے کی کوشش کی تھی۔
پلیکو کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ماہرِ نفسیات ایڈورڈ بشوف نے کہا تھا کہ اس لڑکے نے جو مناظر ٹی وی پر دیکھے تھے وہ شاید اس کی نقل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ ایسا عمل کرنے سے قبل وہ جذباتی اور نفسیاتی اعتبار سے اس عمل کے بارے میں سوچنے کی بلوغت ہی نہیں رکھتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسے بھی کئی کیسز سامنے آئے کہ جن میں بچوں نے ٹی وی پر ریسلنگ، لڑائی یا دیگر پُرخطر کھیل کی نقل کے غرض سے خود کو چوٹ پہنچائی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’بچوں کو اکثر ایسے رویوں کی نقل کرنے میں چھپے خطرات کا احساس ہی نہیں ہوتا اور یہ احساس تب جا کر ہوتا ہے جب چوٹ لگ چکی ہوتی ہے۔‘
ممسا کہتے ہیں کہ ‘ٹی وی سماجی تعلیمی اخلاقی رویے (value systems) اور رویوں کی تعمیر میں زبردست کردار ادا کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے، حالیہ دنوں میں ٹی وی پر دکھائے جانے والا زیادہ تر مواد تشدد پر مشتمل ہوتا ہے۔ مختلف تحقیقوں کے مطابق ٹی وی پر پُرتشدد مناظر دیکھنے کے بعد جارحانہ رویے میں 12 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔‘
ڈاکٹر عظمیٰ عنبرین، پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ سے وابستہ کنسلٹنٹ ماہرِ نفسیات ہیں، وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’جب بچے ٹی وی پر پُرتشدد مناظر دیکھتے ہیں تو ان کی شخصیت میں جارحیت پیدا ہونے کا رسک بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ان میں تشدد کو لے کر حساسیت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ جو اسکرین پر دیکھتے ہیں اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً بچے سپر ہیروز کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر چونکہ وہ ٹی وی پر کسی شخص کو چوٹ لگتے ہوئے نہیں دیکھتے اس لیے انہیں اس میں چھپے ممکنہ نتائج کا احساس ہی نہیں ہوتا۔‘ پروگرام میں اگر یہ پیغام دیا جائے کہ تشدد غلط ہے تو پھر ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی ابہام ہو تو پھر ایسی کوئی چیز دکھانا ٹھیک نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس پیرنٹل گائڈینس (Parental Guidance) یا والدین کے لیے ضروری ہدایات ہی دستیاب نہیں ہوتیں۔
پُرتشدد کارٹون اور فلمیں وغیرہ بچے کے ذہن میں سوچ پیدا کرسکتی ہیں کہ دنیا ایک خطرناک اور غیر محفوظ جگہ ہے۔ اگر بچے تواتر کے ساتھ ایسے پروگرام دیکھیں گے تو وہ رات کو گھر سے باہر ٹہلنے سے بھی گھبرائیں گے کہ کہیں وہ کسی جرم کا شکار نہ بن جائیں، دیگر لفظوں میں کہیں تو ان کی ذہنیت میں ’بدتر دنیا‘ کا تصور بیٹھ جاتا ہے۔
صورتحال بدترین اس وقت ہوجاتی ہے جب نیوز ٹی وی چینل 24 گھنٹے موت، تباہی اور تنازعات کی خبریں نشر کر رہے ہوتے ہیں اور لاشوں، بم دھماکوں کے مناظر دکھا رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کا بھلے ہی دھیان ٹی وی اسکرین کی طرف نہ ہو لیکن وہ نشر ہو رہے لفظوں کو پکڑ یا ذہن میں محفوظ کرلیتے ہیں اور امکان ہے کہ وہ اپنے دماغ میں یہ تاثر پیدا کرلیں کہ دنیا محفوظ جگہ نہیں۔ وہ بے حد خوفزدہ یا پھر ان میں تشدد کے خوف کو لے کر غیر حساسیت پیدا ہوسکتی ہے۔
کراچی میں واقع ضیا الدین یونیورسٹی کی کلینیکل ماہرِ نفسیات ثمینہ مسعود حیدر کہتی ہیں کہ، ’ممتاز سائنسی تحقیقوں کے مطابق، ٹی وی پر دکھائے جانے والے پُرتشدد مناظر سے پیدا ہونے والے اثرات کو 3 اہم درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: جارحیت اور نقل کرنے کا عمل، غیر حساسیت اور سخت گیر رویہ، اور خوف و دنیا کے بارے میں منحرف خیالات۔
وہ بچے جن کو جذباتی، رویوں سے متعلق، سیکھنے یا اضطراب ضبط نبضہ (impulse control) سے متعلق مسائل درپیش ہیں وہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے پُرتشدد مناظر سے باآسانی متاثر ہوجاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ بچوں کے رویوں پر اس کے اثرات فوری طور پر نظر آنے لگیں بلکہ یہ اثرات چند سالوں بعد بھی بچوں کے رویوں میں دکھائی دے سکتے ہیں۔‘
ویسے تو دنیا بھر میں بچوں پر پُرتشدد مناظر کے پڑنے والے اثرات کے حوالے سے نہ جانے کتنی تحقیقیں کی گئی ہیں، مگر ثمینہ مسعود حیدر یہاں ایک خاص تحقیق کا تذکرہ کرتی ہیں جسے دی بوبو ڈال تجربہ (Bobo Doll experiment) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تحقیق 50 برس قبل، البرٹ بنڈورہ اور ان کے ساتھیوں نے کی تھی، جسے آبزرویشنل لرننگ (مشاہدے سے سیکھنے کا عمل) پر ہونے والی دنیا کی ایک سب سے مہشور اور پُراثر تحقیق کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔