نقطہ نظر

لیاری سے نقل مکانی اور سندھ

ایک ہی لسانی گروہ کی ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی حکومت کی ناکامی کا ثبوت تو ہے ہی، ساتھ ہی ایک انسانی المیہ بھی ہے۔

پورے سندھ کو نقل مکانی درپیش ہے۔ تھر میں جب قحط پڑتا ہے تو چالیس فیصد سے زیادہ آبادی نقل مکانی کرتی ہے۔ گزشتہ دو سال کی بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ ان میں سے ہزاروں افراد آج تک اپنے آبائی گاؤں نہیں لوٹ سکے ہیں ۔ اب میٹروپولیٹن شہر کراچی میں کی قدیم بستی لیاری سے کچھی برادری کے ہزاروں افراد کو گینگ وار اور لاقانونیت سے تنگ آکر اپنے گھر چھوڑ کر ٹھٹہ، بدین، ٹنڈومحمد خان، جھڈو وغیرہ میں پناہ حاصل کرنی پڑی۔ عجب کہانی ہے۔ کراچی دنیا بھر کے مفرور اور بھٹکتے لوگوں اپنے اندر پناہ دیتا ہے۔ مگر آج اس شہر کے قدیمی باشندے زیر عتاب ہیں۔

سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کے گڑھ اس علاقے کی یہ بھی پہچان رہی ہے کہ نصف صدی تک قومی حقوق اور جمہوری تحریک میں بھرپور کردار ادا کرتا رہا اور اسی بستی نے کئی نامور ترقی پسند دانشور اور سیاسی کارکن پیدا کیے۔ مگر اب لیاری کا پروفائل بدل رہا ہے۔ جرائم، مارا ماری، اور عدم برداشت اس کی پہچان بن گئی ہے۔ اب تو اس میں نقل مکانی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اس لیاری کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سمجھنے اور اس کا احساس کرنے میں ناکام رہی۔ کوئی سیاسی اور انتظامی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اب یہاں گینگ اور لاقانونیت کی وجہ سے لوگ خود کو سیاسی اور سماجی طور پر غیر محفوظ اور لاوارث سمجھنے لگے ہیں۔

لیاری بلوچوں، کچھیوں اور سندھیوں کی ملی جلی آبادی کا علاقہ رہا ہے، جہاں بلوچوں کی اکثریت ہے۔ مگر ان کے درمیان نسلی یا لسانی ٹکراؤ نہیں ہوا۔ کبھی اگر کوئی چھوٹا موٹا ذاتی یا گروہی ٹکراؤ ہوا بھی توبرادریوں کے معززین مل بیٹھ کر اس کو حل کرتے تھے اور متحارب گروپ واپس شیر وشکر ہوجاتے تھے۔ مگر لاقانونیت اور حکومت کی نااہلی ہی نہیں بلکہ کوتاہی اور ناکامی نے اس بستی کو مافیاؤں کی گود میں پھینک دیا ہے۔ اب روایتی بندھن ٹوٹ چکے ہیں۔ جھگڑوں اور ٹکراؤ کو حل کرنے کے برادرانہ طریقے ختم ہوچکے ہیں۔

تاریخی طور پر سندھ اور کچھ کے علاقے کے قدیمی تعلقات رہے ہیں۔ اور وہاں کی آبادی سندھ میں آکر آبادہوتی رہی ہے۔ کچھیوں کی بڑی آبادی 1850ء سے 1940ء کے درمیان سندھ میں آئی۔ اور سندھ کے مختلف شہروں میں آباد ہوئی۔ کچھی برادری کا ایک حصہ قیام پاکستان کے بعد بھی آیا۔ ان کی زبان اور ثقافت وہی ہے جو سندھ کی ہے۔ آج بھی انڈیا کے کچھ بھوج کے علاقے کے لوک گیت سندھی میں ہی ہیں۔ کچھی برادری کی ذاتیں ہنگورو، سومرو، نہڑے، راہموں، کمبھر، وغیرہ ہیں۔ یہی ذاتیں سندھ کے زیریں علاقے میں بھی ہیں۔ کراچی میں آباد کچھیوں کو شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری، سندھی لوک ادب اور کہانیاں اسی طرح یاد ہیں جس طرح سندھ کے کسی فرد کو ہوسکتی ہیں۔ استاد محمد ابراہیم، عبداللہ کچھی اور دیگر گائیک  سندھی کے بڑے فنکار بھی اسی کمیونٹی سے پیدا ہوئے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ادبی خواہ سرکاری حلقوں نے کراچی میں رہنے والی اس لسانی آبادی کو سندھی ثقافت کا حصہ بنانے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہی صورتحال سیاسی، سماجی حوالے سے بھی قائم رہی۔

اس کے علاوہ کراچی میں رہائش، وہاں مارکیٹ کی زبان، اور وہاں کے رہن سہن نے کچھی برادری کو سندھی ثقافت کا حصہ بننے میں رکاوٹ پیدا کردی۔مہاجر غیر مہاجر کی لسانی سیاست اور لیاری میں لاقانونیت نے ان کو مجبور کردیا کہ وہ اپنی الگ شناخت کرائیں۔ کراچی جہاں فتح کرنے اور کنٹرول کرنے کی جو مسلح جنگ چل رہی تھی کچھی برادری بھی اس جنگ میں شامل ہوتی چلی گئی۔

کچھی برادری کی تنہائی نے کراچی میں ایک اور لسانی گروہ کو اُبھارا۔ ورنہ یہ گروہ سندھ اور بلوچ آبادی کا حصہ تھا۔ شمالی سندھ قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے بٹا ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جو سیاسی، سماجی، انتظامی اور ترقی کے حوالے سے پیچیدگیوں سے ہرکوئی بخوبی واقف ہے۔مگر کراچی جو اس سے پہلے لسانی کی سیاست کی وجہ سے مہاجر اور غیر مہاجربنیاد پر بٹا ہوا تھا مگر بلوچ سندھی اور کچھی ایک مشترکہ فریق کے طور پر تھے۔ ان میں تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ یہ تضاد کراچی کے پرانے باشندوں اور مجموعی طور پر سندھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ یہ ایک اور بڑی تقسیم ہے، جو پرانے باشندوں کی صفوں میں ہورہی ہے۔لیاری کو سیاسی اور انتظامی طور سنبھالینے میں ناکامی کی وجہ ایم کیو ایم نے اپنی جگہ پیدا کی۔ اطلاعات کے مطابق کچھی برادری کے ایک حصہ کی ایم کیو ایم سے قربت ہوگئی ہے۔

دراصل کراچی کے میٹروپولیٹن شہر سے ایک ہی لسانی گروہ کے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی حکومت کی ناکامی کا ثبوت تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ایک انسانی المیہ پیدا ہوگیا ہے۔

صوبائی حکومت اور پیپلز پارٹی جس کی حکومت ہے اور لیاری جس کا حلقہ انتخاب بھی ہے اس نے اس ضمن میں کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ حکومت اپنے سیاسی خواہ انتظامی و انٹیلیجنس نیٹ ورک کے باوجود اس امر سے بے خبر رہی کہ ہزاروں افراد ایک ہی علاقے سے ایک ہی کمیونٹی کے نقل مکانی کرنے والے ہیں۔ پیشگی معلومات نہ رکھنا حکومت کی نااہلی پر ایک اور ٹھپّہ ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے حالات کے باوجود پیپلز پارٹی کو اپنی صفوں میں نہ تین سال قبل اور نہ اب کوئی ایک شخص ایسا ملا جس کو محکمہ داخلہ کا قلمدان دیا جاسکے۔

حال ہی میں جب نقل مکانی ہوئی توایسے افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا اس معاملے نہ تعلق ہے، نہ مہارت اور ویژن ہے۔وزیر قانون سکندر مندھرو کا کسی حد تک تعلق بنتا ہے کہ ان کی کچھی برادری سے تعلق داری ہے۔ باقی تین افراد کی نہ لیاری میں، نہ حکومت میں اور نہ ہی عام لوگوں میں کوئی سے ہے، جس کو دیکھتے ہوئے لوگ ان کی بات مان لیں یا ان کی سفارشوں کو وزن مل سکے۔ لگتا ہے کہ حکومت نے خانہ پُری کے لیے کمیٹی بنائی ہے۔

کمیٹی کے ممبران جب متاثرہ افراد سے ٹھٹہ اور بدین میں ملے تو انہوں نے حکومت کی طرف سے جاری کردہ پانچ پانچ ہزار روپے فی خاندان کی امداد لوٹا دی۔ وزیرقانون کے ضلع بدین میں چاول کی دیگیں پکا کر متاثرین کو دی گئیں تو انہوں نے کہا کہ ہمیں چاول نہیں چاہئے، امن چاہئے تاکہ ہم واپس گھروں کو جاسکیں۔ سکندر مندھرو کے ہی ضلع میں متاثرین نے ایک درگاہ کے پاس کیمپ لگا کر پناہ لینے والے متاثرین کو انتظامیہ نے اُٹھادیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کمیٹی کتنی مؤثر ثابت ہوگی۔

اس صورتحال میں وفاقی حکومت کو بھی موقعہ مل گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی سیکریٹری داخلہ اور انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کو کراچی بھیجا کہ وہ صورتحال کے بارے میں رپورٹ پیش کریں۔گزشتہ ایک ماہ کے دوران وفاقی حکومت تین مرتبہ تشویش کا اظہار کر چکی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کہ چکے ہیں کہ اگرچہ امن وامان صوبائی معاملہ ہے مگر انہیں موقعہ دیا جائے تو وہ حالات ٹھیک کرسکتے ہیں۔چوہدری نثار علی خان نے کیا سوچ کے یہ بات کہی ہے؟ کیا وفاق صوبائی حکومت کو ہٹاکر صوبے میں گورنر راج لاگو کرکے یا کسی دوسرے ایسے اقدام سے معاملات نمٹانا چاہ رہے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کو درخواست کرے کہ وہ اس کی مدد کے لیے آئے۔ جیسا کہ نوّے کے عشرے میں مظفر حسین شاہ کے دور حکومت میں کیا گیا تھا۔ کیا چوہدری نثار وفاقی اداروں کو اس کا م میں ملؤث کرنا چاہتے ہیں؟

سندھ کے معاملات خاص طور پر کراچی کے حوالے سے وفاق کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ نواز شریف کی حکومت نے کراچی میں آپریشن کیا۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر نے ڈنڈا گھمایا۔ مشرف دور تو ویسے بھی وفاق کا ہی تھا۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک وفاق کے نہیں بلکہ سندھ کے وزیرداخلہ تھے۔ ویسے بھی سندھ حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ کسی کو وزیرداخلہ مقرر کرتی۔

ان روایات کو دیکھتے ہوئے اگر نواز حکومت ایسا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے دو تین بار سوچنا چاہئے۔ کیونکہ کسی ایک صوبے میں عدم استحکام صرف اس صوبے تک محدود نہیں رہتا۔ اگر زلزلے کا مرکز کراچی بنتا ہے تو اسلام آباد بھی اس کے جھٹکوں سے بچ نہیں سکے گا۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے گزشتہ حکومتوں میں یہ تجربے ہم دیکھ چکے ہیں۔

سہیل سانگی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔