ہاجرہ: جسے آخری دم تک جھیل کی بربادی کا دکھ رہا
ہاجرہ: جسے آخری دم تک جھیل کی بربادی کا دکھ رہا
ہم جہاں آنکھیں کھولتے ہیں، جس آنگن سے پہلی بار نیلا آسمان دیکھتے ہیں، جس نیم کے پیڑ پر بیٹھی ہوئی کوئل کی کُوک سُنتے ہیں، وہ جگہ ہی ہماری کُل کائنات ہوتی ہے۔ اس کائنات کا سب سے بڑا دُکھ اپنے گھر کا آنگن چھوڑنا ہوتا ہے۔ آنگن چھوڑنا تو بہت دُور، ایسے لمحات کے تو تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔
ایسی کیفیت میں جب بے بسی اور لاچاری کے کانٹے زندگی کے چمن میں جابجا نمو ہوجائیں تو روح کی تڑپ کا حساب کیا پوچھنا۔
کیٹی بندر، شاہ بندر یا جاتی کے قریب کلکا چھانی سے سمندر کے راستے آپ باآسانی اُس ’نریڑی جھیل‘ پر پہنچ سکتے ہیں جسے ایک زمانے میں ’رامسر سائیٹ‘ کا اعزاز دیا گیا۔ اپنے زمانے میں اس جھیل کا کُل رقبہ 2 ہزار 540 ہیکٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ رامسر کنوینشن، ہیڈ کوارٹر سوئزرلینڈ کی ڈائریکٹری کے مطابق یہ پرندوں کے تحفظ کے لیے ایک شاندار جھیل ہے۔ یہاں اس حوالے سے جو طیور شماریاں کی گئیں اُن کے مطابق ’یہاں موسم سرما میں لاکھوں کی تعداد میں پرندے آتے ہیں۔‘
میں نے اس جھیل کے وہ خوبصورت دن بالکل دیکھے ہیں۔ میں پہلی بار وہاں 1988ء میں گیا تھا۔ وہ جاڑوں کے دن تھے جب آسمان بالکل نیلا ہوتا ہے اور پانی میں لہریں کم۔ جھیل کے مرکز میں بنے ہوئے ایک پُل پر سے میں نے حد نظر تک دیکھا، ساکت پانی کی چادر بچھی ہوئی تھی۔