’نیا 100 دن، پرانا 9 دن‘
تبدیلی کے پہلے 100 دنوں میں پاکستان کتنا تبدیل ہوا ہے؟ امید اور ناامیدی کے پنڈولم پر جھولتے عوام کی قسمت میں صرف دلفریب وعدے ہی ہیں یا پھر ملک کی سمت درست کرنے کے لیے پہلی اینٹ رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی کی گئی؟
ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی سعی کرنا اور پھر اس سعی لاحاصل کو عوام کے سامنے پیش کرنا، پیشہ ورانہ مجبوری کا تقاضا ٹھہرا مگر ہائے افسوس! واچ ڈاگ کے دعوے پر پورا اترنے کی کوششوں اور تنقید برائے تنقید کے ’بلٹ ان‘ فارمولے پر عمل کرنے کی ’جزِ لاینفک‘ مجبوریوں نے صحافی کو میڈیا مین بنا کر، اس سے تجزیے کی صلاحیت چھین کر ہاتھوں میں قلم کے بجائے فیصلے کا ہتھوڑا تھما دیا ہے۔
معاشی حالت انفرادی ہو یا ملکی، ہماری روزمرہ کی بیٹھکوں سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارت کے مضامین تک میں اس کا ذکر لازم قرار پاتا ہے۔ مگر اس حقیقت کو شاید بہت کم لوگ سمجھتے ہیں کہ لمحہ موجود میں ہماری یا ملک کی جو معاشی حالت ہوگی اس کا تعلق صرف گزرے 100 دنوں سے ہی جوڑنا شاید مکمل سچ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کسی بھی دیرپا شخصی کاروبار کے دوران اٹھائے گئے اقدامات کے معاشی نتائج اگر 100 دن میں حاصل کرنے کی خواہش رکھنا بے وقوفی ہے تو کاروبارِ حکومت کے دوران اٹھائے اقدامات کے معاشی نتائج 100 دنوں میں بھلا کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں؟ معاشی ماہرین تو ایک طرف معیشت سے مکمل آگہی نہ رکھنے والے بھی یہ بات جانتے ہیں کہ معاشی اعشاریوں کا تقابل مہینوں کے بجائے برسوں سے کیا جانا ہی اقدامات کے حقیقی نتائج کو آشکار کرتا ہے۔