عمران خان کی حکومت کے 100 دن اور معاشی اعشاریے
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو پہلے 100 دن مکمل ہوگئے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں کسی بھی حکومت کے ابتدائی 3 ماہ یا 100 دن کو بہت اہم گردایا جاتا ہے کیونکہ حکومت نے انتخابات نئے نئے جیتے ہوتے ہیں اور اس نے معیشت، سیاست، سماجیات، سفارت کاری، امن و امان اور خدمات کی فراہمی کے حوالے سے جو وعدے عوام سے کیے ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہوتے ہیں۔ حکومت کے پہلے 100 دنوں کی کارکردگی کو برسرِاقتدار جماعت کے منشور اور انتخابی وعدوں کی تکمیل سے متعلق اقدامات سے بھی جانا جاتا ہے۔
مگر پی ٹی آئی کے پہلے 100 دنوں پر عوام، میڈیا اور ناقدین کی نظر کچھ زیادہ ہی گہری ہے، اور کیوں نہ ہوں، پی ٹی آئی نے انتخابات سے قبل ہی اپنے 100 دنوں کا ایجنڈا تحریری صورت میں جاری کردیا تھا۔ اس ایجنڈے میں متعدد شعبوں سے متعلق منصوبہ بندی کو شامل کیا گیا تھا۔ جس میں حکومتی اصلاحات اور گورننس، وفاق کی مضبوطی، معیشت کی بحالی، زرعی شعبے کی ترقی اور پانی کی بچت، سماجی خدمات میں انقلابی تبدیلیوں اور پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت اور ساتھ اس بات کی بھی ضمانت دی گئی کہ اس ایجنڈے پر عمل ہوگا۔
عمران خان کو وزیرِاعظم بنے 100 دن مکمل ہوگئے ہیں اور اس دوران ایجنڈے پر کام، کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے ہر طرف تبصرے جاری ہیں۔ اپوزیشن حکومت کی کارکردگی کی ابتدا کو صفر قرار دے رہی ہے تو حکومت اپنی کارکردگی سے مطمئن نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی کے اس 100 دن ایجنڈے کے معاشی پہلوؤں کا اس تحریر میں جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
100 دن کے ایجنڈے کے مسودے کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دعویٰ سامنے آتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی معاشی ترقی کے دعوے محض ایک فریب اور سراب کے سوا کچھ نہیں اور اعداد و شمار کو غلط طور پر پیش کیا گیا تھا۔
کنزیومر ازم اور کھپت کو فروغ دیا گیا جس سے ملکی قرضہ غیر مستحکم سطح تک پہنچ گیا ہے۔ مگر معیشت کی بنیاد 5 سال بعد بھی اچھی حالت میں موجود نہیں۔ ٹیکس ٹُو جی ڈی پی ریشو، بلواسطہ ٹیکس نظام کی خرابیاں درآمدات میں اضافے، برآمدات میں کمی، زرِمبادلہ ذخائر میں کمی، غیر ملکی قرض میں اضافہ، توانائی کا شعبہ، پی آئی اے اسٹیل ملز میں گورننس کی کمی اور خسارہ اور اس سب کو ٹھیک کرنے کے لیے 10 نکات پیش کیے گئے تھے۔
پیش کیے گئے نکات میں ہنرمند افرادی قوت کی تیاری کے ساتھ ساتھ فوری طور پر ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا، پیداواری شعبہ، صنعت، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی بحالی، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، سیاحت کا فروغ، ٹیکس اصلاحات، پاکستان میں کاروبار دوست ماحول کی فراہمی، حکومتی کاروباری اداروں میں اصلاحات، پاکستان کے توانائی کے چیلنجز سے نمٹنا، پاکستان چین اقتصادی راہدری میں اصلاحات اور تبدیلیاِں اور عوام تک مالیاتی صنعت کی خدمات کی فراہمی شامل تھے۔
مگر لگتا تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت بنانے کے ساتھ ہی ان نکات پر عمل کرنے کے بجائے میکرواکنامک اعشاریوں کو ٹھیک کرنے میں لگ گئی ہے۔ عمران خان کی حکومت نے قائم ہونے کے ساتھ وہ تمام اقدامات اٹھائے جن پر ماضی کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی، سوئی گیس کو 134 فیصد تک مہنگا کرنا اور بجلی کے فی یونٹ چارجز میں اضافہ ایسے اقدامات تھے جس سے عوام بلبلا اٹھے۔