پاکستان

جعلی اکاؤنٹس کیس میں بلاول بھٹو زرداری بھی شاملِ تفتیش

جے آئی ٹی نے پی پی پی چیئرمین کو ان کے بینک اکاؤنٹس کی درکار معلومات کے حوالے سے سوالنامہ ارسال کیا، ترجمان بلاول

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں کی جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے مبینہ منی لانڈرنگ کی انکوئری کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی شاملِ تفتیش کرلیا۔

بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر کے مطابق جے آئی ٹی نے پی پی پی چیئرمین کو ان کے بینک اکاؤنٹس کی درکار معلومات کے حوالے سے سوالنامہ ارسال کیا ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بلاول بھٹو زرداری کو سوالنامہ بھیجا گیا ہے جس کا انہیں 29 نومبر تک جواب جمع کروانا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی

تاہم انہوں نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی نے پی پی پی چیئرمین کو طلب کیا ہے، انہوں نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری کو صرف سوالنامے کا جواب جمع کروانے کا کہا گیا ہے۔

مصطفیٰ کھوکھر نے بتایا کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بدھ کے روز (آج) جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔

واضح رہے کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور سمیت دیگر افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے بینک عملے کی ملی بھگت سے جعلی بینک اکاؤنٹ کے ذریعے سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی جارہی ہیں جس کے لیے گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کے احکامات پر جے آئی ٹی بنائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: 107 اکاؤنٹس سے 54 ارب کی ٹرانزیکشنز کا انکشاف

خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) 2015 سے متعلق جعلی اکاؤنٹس اور سمٹ بینک، سندھ بینک اور یونائیٹد بینک کے 29 بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے رقم کی مشتبہ منتقلی کے کیس کی تحقیقات کررہا ہے۔

پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت 7 افراد مبینہ طور پر رقم کی منتقلی کے لیے جعلی بینک اکاؤنٹس کا استعمال کرنے میں ملوث ہیں، جس کے ذریعے تقریباً 35 ارب روپے کی خطیر رقم منتقل کی گئی، جو مبینہ طور پر رشوت کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: زرداری گروپ کی 2 نئی کمپنیوں کا انکشاف

یاد رہے کہ چییف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے اس کی تحقیقات سندھ میں کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کا خیال تھا کہ کیس کی نوعیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی تحقیقات اسلام آباد میں ہونی چاہیے۔


یہ خبر 28 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔