کاروبار

حکومت کے 100 روز: ایندھن، اشیا خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ

اقتصادی عدم توازن کے باعث نئی حکومت کے پہلے 100 روز میں عوام کو مہنگائی کے بڑے بوجھ کا سامنا کرنا پڑا، رپورٹ

کراچی: اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی ملنے والے بڑے اقتصادی عدم توازن کے باعث پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے پہلے 100 روز میں عوام کو مہنگائی کے بڑے بوجھ کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک میں پہلے ہی مہنگائی کے باعث اہم ضروریات زندگی عام فرد کی قوت خرید سے دور تھیں، وہیں روپے کی قدر میں کمی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔

انٹربینک مارکیٹ اور اوپن مارکیٹ میں روپیہ اپنی قدر کھوتا رہا اور یہ 8 فیصد اور 10.4 فیصد تک گر گیا۔

مزید پڑھیں: حکومت کے 100 روز: وعدے اور کارکردگی

کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کی افراط ذر اکتوبر میں 6.8 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 3.8 فیصد سے بڑھی تھی جبکہ ستمبر کے 5.1 فیصد سے بھی زائد تھی۔

اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے افراط ذر مانیٹر سے موصول اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ اثر غیر غذائی اشیا پر پڑا اور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث یہ ہوا کیونکہ سی پی آئی میں ایندھن کی قیمتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔

حکومت کی جانب سے ماہ سمتبر اور اکتوبر میں ڈیزل کی قیمت 106 روپے 57 پیسے فی لیٹر برقرار رکھی گئی تھی تو وہیں یکم نومبر میں اسے بڑھا کر 112 روپے 94 پیسے کردیا گیا جو یکم اگست کے نرخ کے مطابق تھی۔

نئی حکومت کے 100 روز میں سی این جی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ بھی شامل تھا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کی قیمت 100 روپے فی کلو سے تجاوز کر گئی۔

گیس کی قیمت میں 40 فیصد اضافے سے فی ایم ایم بی ٹی یو 980 روپے تک پہنچ گیا جبکہ 81 روپے 70 پیسے فی کلو سے بڑھ کر سی این جی 103 سے 104 روپے کلو تک پہنچ گئی۔

جس کے بعد بھاری گیس کے بل موصول ہونے سے بچنے کے لیے چپاتی، نان، شیر مال، تافتان اور کلچہ بنانے والوں نے قیمتوں میں اضافہ کردیا جبکہ کچھ ہوٹل مالکان نے یا تو روٹی کا وزن کم کردیا یا مختلف کھانوں کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔

مختلف علاقوں میں نان اور چپاتی کی قیمت میں 2 روپے جبکہ شیر مال اور تافتان میں 5 سے 35 روپے تک بڑھائے گئے، اسی طرح کلچے کی قیمت میں بھی 2 روپے اضافہ کیا گیا۔

اسی طرح اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کے باعث چکی والوں نے 10 کلو آٹے کی قیمت میں 20 روپے تک بڑھا دی۔

دوسری جانب ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے چیئرمین محمد حسن بخشی کا کہنا تھا کہ 50 کلو سیمنٹ کی بوری کی قیمت میں 30 روپے تک اضافہ ہوا جبکہ مقامی طور پر بننے والے ٹائلز کی قیمت میں 5 سے 6 فیصد اور درآمدی ٹائلز میں 13 سے 15 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 روز میں عوام کیلئے ریلیف نہیں

ادھر کراچی ہول سیلر گراسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین انیس مجید کے مطابق روپے کی قدر میں کمی اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے سے ٹرانسپورٹیشن چارجز میں اضافے کے باعث مختلف دالوں کی قیمتوں میں 5 سے 10 روپے فی کلو اضافہ ہوگیا۔

اس کے علاوہ ڈیری مصنوعات خاص طور پر پاؤڈر والی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، اگست اور اکتوبر میں مختلف کمپنیوں نے قیمتیں بڑھائیں۔

مہنگائی کے اس طوفان میں مرغی کی قیمتوں کو بھی پَر لگ گئے اور زندہ مرغی کی قیمت 120 اور 130 روپے سے بڑھ کر 240 روپے جبکہ گوشت کی قیمت 220 سے 250 روپے سے بڑھ کر 380 سے 420 روپے تک پہنچ گئی۔

علاوہ ازیں تیل اور گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا اور کمپنیوں نے کم از کم 10 روپے فی لیٹر قیمتیں بڑھا دیں۔