سیاسی لڈو کی دلچسپ کہانی
مکھن/تیل، بیسن اور باریک کٹے ہوئے خشک میواجات سے بنی یہ پیلی ’رنگ کی گیند‘ جسے لڈو کہتے ہیں برِصغیر کی سب سے مشہور مٹھائی ہے، جس کی خاص وجہ بھی ہے۔
یہ مٹھائی جنوبی ایشیا میں ایجاد ہوئی تھی۔ خوراک اور ثقافت کی تاریخدان مادھولکا ڈیش کے مطابق لڈو کی ابتدا ہزاروں برس یا 4 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ 18 نومبر 2018ء کو دی انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ڈیش لکھتی ہیں کہ لڈو کو دوا کے طور پر ایجاد کیا گیا تھا۔ لڈو کو مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اسے بلوغت میں داخل ہونے والی لڑکیوں کو دیا جاتا تھا تاکہ انہیں جنسی جذبات (raging hormones) کو قابو میں رکھنے مدد مل سکے۔
اے کے سنہا اپنی کتاب اینتھراپالاجی آف سوئیٹ میٹس میں لکھتے ہیں کہ ’مٹھائیاں اہم مذہبی موقعوں پر بانٹی جاتی تھیں، اسی طرح پھر خوشی کے مواقعوں پر بھی مٹھائیاں تقسیم کرنے کی روایت شروع ہوگئی۔ یہی وہ وقت تھا جب لڈو دوائی سے بڑھ کر ایک مقبول مٹھائی کی حیثیت حاصل کرچکا تھا۔
دہلی سلطنت کے سلطانوں اور اس کے علاوہ مغلوں نے بھی لڈو کی حیثیت بڑھانے میں خاصا کردار ادا کیا۔ ڈیش کے مطابق ان سلطانوں نے لڈو میں کجھور، انجیر، میوے اور ایران سے لائے گئے سبزیوں کے بیج شامل کرکے ’شاہی لڈو‘ متعارف کروائے۔ تاہم ڈیش کہتی ہیں کہ جس صورت میں لڈو آج ہم دیکھتے ہیں اس کی ابتدا 300 برس قبل ہوئی تھی، جب برطانوی کالونیلسٹوں نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ سفید چینی متعارف کروائی تھی۔ ڈیش کے مطابق، یہ بڑی ہی دلچسپ بات ہے کہ مقامی لوگ اس چینی کو ’سفید زہر‘ پکارتے تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے محبوب لڈو میں اس سفید زہر کو بڑی مقدار میں شامل کرنے میں ذرا بھی کنجوسی نہیں کی۔
تو جناب، صدیوں سے لڈو ایک ایسی خاص مٹھائی رہی ہے جو جنوبی ایشیا میں ہندو اور مسلمان اپنے مذہبی تہواروں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ ان خوشی کے موقعوں میں شادیاں، دیوالی، عید، بچے کی پیدائش، پیشے کا حصول یا تعلیم میں کامیابی، صوفی بزرگوں کے عرس، مقدس شخصیات کی ولادتوں کے دن وغیرہ شامل رہے ہیں۔