پی ایس ایل: کاروباری کھیل یا نئے کھلاڑیوں کی آبیاری کا ذریعہ؟
جب پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) شروع ہوئی تو سب یہ سوچ رہے تھے کہ اس سے پاکستان کو نیا ٹیلنٹ تلاش کرنے میں بہت مدد ملے گی اور بہت سارے نوجوان جو ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل اچھا پرفارم کر رہے ہیں انہیں ایک بڑا اسٹیج مل جائے گا جس سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
اگر ہم حسن علی، شاداب خان، حسین طلعت اور فخر زمان کی ہی مثال لے لیں تو بہت حد تک اس میں سچائی بھی نظر آئے گی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مندرجہ بالا کھلاڑیوں کے حوالے سے سارا کریڈٹ ان کی فرنچائزز سمیٹ رہی ہیں لیکن ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ یہ سارے ڈومیسٹک پراڈکٹ ہیں اور ایک سسٹم سے نکل کر آئے ہیں۔ ان کے اندر ٹیلنٹ موجود تھا جسے نکھارنے میں پی ایس ایل نے مدد کردی اور آج یہ پاکستان کی ٹیم میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
یہ بحث لمبی ہے کہ کھلاڑیوں کی بہتری میں پی ایس ایل نے درحقیقت کتنا حصہ ڈالا ہے۔ ہم اس میں الجھے بغیر اس نئی بحث کا ذکر کریں گے جو تازہ ترین پلیئر ڈرافٹنگ نے چھیڑ دی ہے۔ یعنی یہ کہ آیا خام ٹیلنٹ کے نکھار کے لیے لیگ کی فرنچائزز پورا حصہ بھی ڈال رہی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ بہت سارے نئے لڑکے جو ڈومیسٹک میں بہت عمدہ پرفارم کرچکے ہیں وہ اس بار بھی لیگ کا حصہ نہیں بن سکے۔
کیا لیگ میں کھلاڑیوں کا انتخاب مکمل طور پر کاروباری انداز میں ہوتا ہے یا نئے ٹیلنٹ کی آبیاری بھی اس کا ایک مشن ہے؟ ویسے تو بہت سے کھلاڑیوں کے نام لکھے جا سکتے ہیں تاہم ہم یہاں ان 5 کھلاڑیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جن کی عدم شمولیت شائقین کرکٹ کے لیے ایک دھچکے سے کسی صورت کم نہیں۔