اسیر شہزادی... فہمیدہ ریاض
انہیں جب شدید علالت نے آن گھیرا، موت نے ان کے دروازے پر جب دستک دینا شروع کی تو اس کے جواب میں اپنے دوستوں سے وہ کچھ یوں مخاطب ہوئیں۔ ’فی الحال تو ما بدولت دنیا میں موجود ہیں۔ کیوں نہ میں وہ سب کروں، جو کرنا چاہتی ہوں۔ میں ہنزہ جانا چاہتی ہوں، روس جانا چاہتی ہوں، میں نے پھر سے گوگول کی ایک کتاب پڑھنا شروع کی ہے۔‘ وہ ایسی آرزوؤں کے اظہار میں باقی کے دن گزارنا چاہتی تھیں۔ موت کی دستک پر ایسا شاعرانہ جواب دینے والا ’فہمیدہ ریاض‘ کے سوا کون ہوسکتا ہے۔ وہ زندگی سے گویا یوں مخاطب ہوئیں۔
سنگ دل رواجوں کی
یہ عمارت کہنہ
اپنے آپ پر نادم
اپنے بوجھ سے لرزاں
جس کا ذرہ ذرہ ہے
خود شکستگی کا ساماں
سب خمیدہ دیواریں
سب جھکی ہوئی گڑیاں
سنگ دل رواجوں کے
خستہ حال زنداں میں
اک صدائے مستانہ
ایک رقص رندانہ
یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
ان کے لکھنے کا ابتدائی معرووف حوالہ تو شاعری ہے، لیکن وہ دھیرے دھیرے نثر کی طرف آگئیں۔ مختلف اصنافِ سُخن میں تخلیقی ہنر کو آزمایا، حیرت انگیز طور پر نثری کام کافی حد تک ان کے شعری کام پر غالب آگیا۔ وہ کلاسیکی لہجے میں، جدید رویے کے ساتھ، روایت اور تصوف کے اسرار و رموز کی گتھیاں سلجھانے لگیں۔ کبھی صوفی شاعروں کے حروف ان کو اپنے سحر میں جکڑنے لگے تو کبھی قدیم تاریخ کے فراموش کردار ان کے دُو بدو ہونے لگے۔