یمن: 85 ہزار بچے بھوک کے باعث لقمہ اجل بن گئے
جنگ زدہ یمن میں گزشتہ 3 برس میں تقریباً 85 ہزار بچے محض بھوک کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے۔
غیر ملکی خبررساں اداے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انتہائی غذائی کمی کے باعث 5 سال تک کی عمر کے بچوں میں اموات کی شرح سب سےزیادہ رہی۔
یہ بھی پڑھیں: یمن: حدیدہ میں جھڑپوں سے 61 حوثی باغی ہلاک
خیال رہے کہ سعودی اتحاد مارچ 2015 سے ایران کی حمایت یافتہ باغی، حوثیوں سے حالت جنگ میں ہے۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ اپریل 2015 سے اکتوبر 2018 کے درمیانی عرصے میں غذائی خوراک کی عدم دستیابی کے سبب تقریباً 84 ہزار 701 بچے بھوک کی وجہ سے دم توڑ گئے۔
یمن میں سیودی چلڈرین کے ڈائریکٹرتیمور کیرولوس نے بتایا کہ ’ہم بہت خوفزدہ ہیں کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک خوراک کی انتہائی کمی کے باعث 85 ہزار بچے جاں بحق ہو گئے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بھوک کے باعث بچوں کے اندورنی اعضاء بتدریج اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں اور بچوں کی موت ہوجاتی ہے تاہم والدین اپنے بچوں کو یوں موت کے منھ میں جاتا دیکھتے ہیں لیکن کچھ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں‘۔
مزید پڑھیں: یمن: اہم پورٹ پر قبضے کیلئے جاری لڑائی میں ہلاکتیں 100 تک پہنچ گئیں
واضح رہے کہ جب سے یمن میں سعودی اماراتی ملٹری مداخلت کا سلسلہ مارچ 2015 سے شروع ہوا ہے، باغیوں کے زیر قبضہ اہم پورٹ حدیدہ کے راستے خوراک کی ترسیل میں ماہانہ 55 ہزار ٹن کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 22 لاکھ بچوں سمیت 44 لاکھ بڑوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔
دوسری جانب ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا کہ ’یمن کے ساحلی علاقے حدیدہ میں جنگ کے باعث تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ یمنی غذائی کمی کی زد میں ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ خوراک کی ترسیل میں مزید کمی کے باعث غیرمعمولی اور ہولناک نتائج سامنے آئیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: یمن جنگ کی وجہ برطانیہ،امریکا کی سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی ہے، ایران
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے یمنی سفیر محمد مطہر الغشبی سے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ’یمن میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے پاکستان کلیدی کردار نبھائے گا اور تمام فریقین کو سیاسی حل کی طرف راغب کرے گا‘۔
وزیر اعظم نے دوطرفہ مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان، یمن کے صدر عبد الربوہ منصور ہادی کی حکومت کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2015 میں حوثی باغیوں کے خلاف اس جنگ میں سعودی اتحاد کی شمولیت سے اب تک 10 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن حدیدہ کا قبضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: یمن کی تباہی کی بڑی وجہ جنگ اور ’منشیات‘
دوسری جانب دیگر امدادی تنظمیوں کا خیال ہے کہ اصل اعداد وشمار اس سے 5 گنا زیادہ ہیں۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 3 ہزار یمنی بچے حدیدہ سے ہجرت کررہے ہیں۔
سیو دی چلڈرن کا کہنا تھا کہ حدیدہ سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 6 ہزار 238 افراد محفوط مقامات کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: یمن: حوثیوں کا سابق صدر علی عبداللہ صالح کی ہلاکت کا دعویٰ
ان کے مطابق ہجرت کرنے والے ان افراد میں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ محفوظ مقامات کی تلاش میں ہجرت کرنے والے افراد کے خاندان کو راستوں میں انتہائی کٹھن مراحل سے گرزنا پڑتا ہے جن میں، بارودی سرنگیں، فضائی حملے اور زمینی جنگ کے مقامات بھی شامل ہیں۔