ہم صحافی بھی رو دیتے ہیں!
پہلے یہ سن لیجیے، ہمارے عنوان کا تعلق کارکن صحافیوں کی بے روزگاری سے نہیں، بلکہ ہمارا موضوع پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہے۔
صحافت کا تعلق حالاتِ حاضرہ سے ہے، جس میں سیاسی گرما گرمی اور زندگی کے سارے کھیل تماشے ہوتے ہیں، اس میں رنج کے ایسے مقام بھی آتے ہیں کہ جہاں آپ کو خبر سے جُوجھنا بھی ہوتا ہے اور اپنی دلی کیفیات کو یکسر ایک طرف بھی رکھنا ہوتا ہے۔
یہ بڑی مجبوری کا وقت ہوتا ہے، ہمارے دل میں ایک ٹیس اٹھتی ہے، پلکیں ڈبڈباتی ہیں، کبھی زار و قطار رو پڑتے ہیں، مگر ’ڈیڈ لائن‘ کی سر پر لٹکتی تلوار اتنی چھوٹ بھی نہیں دیتی کہ ذرا ہلکے ہولیں۔ قارئین و ناظرین کو یہ اندازہ کیسے ہو کہ یہ سب اخبار کے صفحے یا ٹی وی پر دکھائی تو دیتا ہی نہیں۔
پھر کسی بھی خبر کی ’قامت‘ کا تعین مختلف پیمانوں پر کیا جاتا ہے، پہلی بار اس کا اندازہ ہمیں ’نوائے وقت‘ کی مرکزی ڈیسک پر ’ٹرینی‘ کے طور پر بیٹھ کر ہوا۔ اُن دنوں ’ائیر بلو‘ کا طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوا تھا، شاید دوسرے دن ایک خبر میں اس کے مسافروں کا ذکر تھا کہ کون کیا خواب دیکھتا تھا اور کسے کیا کرنا تھا۔ ہماری دانست میں یہ بہت بڑی خبر تھی، مگر ہمیں حکم ہوا کہ بس ’ایک کالمی‘ بنا دو!