نقطہ نظر

نکاح کے وقت طلاق کی بات کرنے میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟؟

اکثربیوی کو اتنی رقم بھی نہیں دی جاتی جس سےپرانی زندگی کو سمیٹنا تودُور کی بات وہ نئی زندگی کی ابتدا بھی نہیں کرسکتی
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

شادی میں سب لوگ کیا پہنیں گے، دلہن کے لباس کا رنگ کون سا ہے، اس کے زیورات کی قیمت کتنی ہے اور کس میک اپ آرٹسٹ یا فوٹوگرافر سے خدمات حاصل کرنی ہیں، اس حوالے سے بڑی پھرتی اور دلچسپی کے ساتھ تیاری نظر آتی ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شادیوں کا سب سے زیادہ نظر انداز حصہ ہے تو نکاح نامہ یا معاہدہ نکاح ہے۔

اس کے بات باری آتی ہے تقریب کی جگہ، مہمانوں کی لسٹ اور تقریب کی فہرستِ طعام کی۔ زیادہ تر تقریبات کے اخراجات کا خیال رکھنے کے لیے شادی لانز سے ہی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ وہ رشتہ دار جنہیں دہائیوں سے نہ سنا ہوتا ہے اور نہ دیکھا ہوتا ہے انہیں بھی مدعو کیا جاتا ہے اور اسی طرح کے دعوت ناموں کے منتظر پڑوسی بھی تقریب میں شرکت کرتے ہیں۔

شادی کی ان تمام مہنگی تقریبات کے درمیان ہم نکاح کی شرائط کو تو جیسے بالکل ہی بھول جاتے ہیں، وہی شرائط جو زیادہ تر مسلم ممالک میں نکاح نامے میں لکھتی ہوتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ارینج (اور حتیٰ کہ پسند کی) شادیوں میں جوڑے کے حوالے سے ہر گفتگو میں خوش امیدی کے ساتھ اور رشتہ ازدواج کے اٹوٹ بندھن کو سوچ کر ہی کی جاتی ہے۔ آیا دونوں کے خاندان ساتھ چل سکیں گے یا نہیں یا دولہا اور دلہن کا رشتہ چل سکے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے غور و فکر میں خاندان کے تمام بڑے افراد شامل ہوتے ہیں اور کئی دنوں تک ان باتوں پر غور کیا جاتا ہے۔ دراصل اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ نکاح کبھی فسخ نہ ہو۔ رشتہ طے کرتے وقت تمام الفاظ اور جذبات کا محور یہی ایک توقع ہوتی ہے، اور ایک طرح کے خاموش اشارے ہوتے ہیں جس کی لڑکے اور لڑکی والے دونوں ہی تعبیداری کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔

افسوس کے ساتھ اٹوٹ بندھن کا تصور حقیقت کا روپ نہیں لیتا۔ پاکستان میں، جس طرح کئی پاکستانی خواتین نے بھی پایا ہے کہ اکثر و بیشتر پاکستان میں استعمال ہونے والے نکاح نامہ فارم میں بیوی کے طلاق کے حق سے متعلقہ شرائط درج ہی نہیں ہوتیں۔ حتیٰ کہ مہر کی ادائیگی جیسی شقیں درج تو ہوتی ہیں لیکن ان پر بھی بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے، جبکہ زیادہ تر لوگ بہت ہی قلیل رقم یا زیور کی قیمت کا اندازہ لگا کر دلہن کو مہر کی ادائیگی کے طور پر دے دیتے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر شوہر طلاق دیتا ہے تو اکثر بیوی کو اتنی مناسب رقم بھی فراہم نہیں کی جاتی جس سے وہ اپنی پرانی زندگی کو سمیٹنا تو دُور کی بات اپنی نئی زندگی کی ابتدا بھی نہیں کرپاتی۔ یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوتی ہے کہ طلاق کی ممکنات کے بارے میں بالکل سوچا تک نہیں جاتا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے حقوق کو ترک کردیا جاتا ہے جو حقوق انہیں بطور مسلمان خواتین، بشمول پاکستانی خواتین، اسلام فراہم کرتا ہے، محض اس لیے کہ بات چیت میں لفظ طلاق استعمال نہ ہو۔

حالیہ برسوں میں جس طرح پاکستان میں اربنائزیشن ہوئی ہے اور زیادہ تر شادیاں پڑھے لکھے افراد کے درمیان ہوتی ہیں، تو نکاح نامہ کو خواتین کے حقوق کو محفوظ بنانے کے ایک ذریعے کے طور پر سمجھ کر اسے حقارت سے دیکھنے کا رویہ اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آچکا ہے۔

وہ خواتین جن میں سے کئی یا تو اپنے شوہر جتنی یا اکثر اوقات ان سے زیادہ پڑھی لکھی ہوتی ہیں، وہ یہ دیکھ کر سہم گئی ہیں کہ ان کے نکاح نامے میں انہیں اس وقت تک طلاق یا خلع لینے کا حق ہی فراہم نہیں کیا گیا جب تک کہ شوہر انہیں اس حق کی ’اجازت‘ نہیں دے دیتا۔ ایک تو وہ خواتین پہلے ہی ٹوٹے پھوٹے رشتے کی مشکل صورتحال سے گزر رہی ہوتی ہیں اور جذباتی بوجھ ان کے سر پر سوار رہتا ہے، اوپر سے انہیں یہ پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس طلاق لینے کے اختیار میں مساوی شرائط بھی حاصل نہیں ہیں۔

مگر اب امید کی تھوڑی کرن نظر آ رہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) ایک ایڈوائزری باڈی ہے اور اس کا کام پاکستان کے قانون کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بنانا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ایک خبر سامنے آئی کہ سی آئی آئی پاکستان میں عام طور پر استعمال ہونے والے نکاح نامے کے فارم کا جائزہ لے رہی ہے۔ سی آئی آئی کے موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز کے مطابق نئے فارم کے مطابق نکاح پڑھوانے والے قاضی کے لیے دلہن کو فسخ نکاح کے حق کے مطالبے کے بارے میں مطلع کرنا ضروری ہوگا۔ نکاح نامے کی تیاری کے وقت ایک بار حق کو تسلیم کردیے جانے کے بعد مستقبل میں کسی قسم کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس طرح ایک خاتون پیچیدہ اور وقت طلب قانونی مرحلے سے گزرنے کے بجائے آسانی کے ساتھ طلاق لینے کا اختیار رکھ سکے گی۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا پاکستانی خواتین، دلہنیں اور خصوصاً مستقبل قریب میں بننے والی دلہنیں، اس موقعے کا فائدہ اٹھائیں گی یا نہیں۔ رپورٹس کے مطابق کونسل کے اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ قاضی کو بیوی کے طلاق کا حق تفویض کرنے سے روکا جاسکے۔ تاہم نکاح نامے میں خواتین کو حاصل اس حق کو دستاویزی شکل دینے کا خود مطالبہ کرنا ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، دستخط کے وقت دلہن اور اس کے گرد مجمعہ طلاق کی ممکنات کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ نہیں سکتا۔

نکاح کے حوالے سے متعارف کیے جانے والے تقاضوں کی مدد سے قاضی کی جانب سے خواتین کے نکاح کے متعلق حقوق اور فسخ کی اہل خانہ (عام طور پر مردوں) کے ایما پر تفویض کرنے کے عمل ختم کرنے کے حوالے سے ایک مثبت اقدام ہے اور اس سے لاکھوں خواتین کی زندگیاں بدلنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ مگر ایک بار نکاح کے حوالے سے تمام تقاضوں کو متعارف کیے جانے کے بعد یہ انحصار خواتین پر ہوگا کہ وہ نکاح کے وقت اس حق کو حاصل کرنے کے لیے خود میں حوصلہ پیدا کریں۔ تمام شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کو اس تبدیلی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ لیکن سی آئی آئی ممکنہ طور پر فارم میں قانونی تبدیلیاں کو تو یقینی بناسکتا ہے لیکن اس سے نکاح کے وقت طلاق کے بارے میں بات کو لے کر جو ثقافتی فرسودہ خیالات پائے جاتے ہیں انہیں اتنی آسانی سے ختم کرنا شاید ممکن نہیں ہوسکے۔

پاکستانی خواتین اس ’اسٹیٹس کو‘ کو ختم کرسکتی ہیں اور انہیں ختم کرنا ہوگا، اس کے لیے جہاں انہیں لگتا ہے کہ انصاف اور اپنی ضرورت کے تحت کوئی تبدیلی ہونی چاہیے تو اس کی اگاہی پھیلائیں اور اصلاحات لائیں۔ اسلام میں خواتین کو حاصل حقوق پر کافی بات ہوچکی ہے، طلاق کا حق بھی انہی حقوق کا ایک حصہ ہے اور نکاح نامہ ایک ایسا دستاویز ہے جس میں تعلقات میں مساوی حیثیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ایک بار سی آئی آئی کی جانب سے اپنی بات کہہ دینے اور نئے ضابطے جاری کردینے کے بعد باقی کا کام خود خواتین کو ہی کرنا ہے۔


یہ مضمون 21 نومبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔