اب بھلا قسمت سے کون پوچھے گا؟
ہم کتنے بدنصیب ہیں۔ جو چیزیں تعریف کے قابل ہوں اُن کی تعریف کسی اور چیز سے مشروط کرکے اُس کی اصل حیثیت کو گھٹا دیتے ہیں۔
جیسے اگر پاکستان کرکٹ ٹیم میچ جیت جائے تو ہم ایک دفعہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے اچھا کھیلا اور جیت گئے لیکن اُس کے بعد؟ شکر کرو کوہلی نہیں کھیلا، شکر کرو ٹاس جیت گئے، شکر کرو بارش نہیں ہوئی، بس ان تمام شکرانوں میں جو کم ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے اُس اصل فعل کا شکر جس کی وجہ سے کام ہوا۔
کچھ دنوں پہلے ایف ایس سی اور اس سے پہلے میٹرک کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوا۔ چونکہ یہ امتحانات کے نتائج تھے اس لیے کوئی اول آیا، کوئی دوئم اور اسی طرح قطار بنتی گئی۔ تعلیمی اداروں نے اپنے اپنے اچھے نمبروں کے ساتھ کامیاب ہونے والے طلباء کے بینرز لگوائے جس سے یقیناً بچوں کا بھی حوصلہ بلند ہوا اور بلاشبہ اداروں کی تشہیر بھی ہوئی۔
اس سارے معاملے میں چونکا دینے والی بات اُن بینرز پر لکھی تحریر تھی: ’کامیاب ہونے والے خوش نصیب طلبا کو مبارکباد‘