دنیا

دہشت گردی پر بیان، مسلمان رہنماؤں کا آسٹریلوی وزیراعظم سے ملاقات کا بائیکاٹ

مسلمان رہنماؤں پر مذہبی انتہا پسندی کے نظریے کے خاتمے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن

دہشت گرد حملوں کو روکنے سے متعلق آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسون کے بیان کے ردعمل میں مسلمان رہنماؤں نے ان کے ساتھ متوقع ملاقات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اسکاٹ موریسن نے رواں مہینے کے آغاز میں میلبورن میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد مسلم برادری کے رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان پر ’مذہبی انتہا پسندی کے خطرناک نظریے‘ کے خاتمے کی ’خصوصی ذمہ داری‘ عائد ہوتی ہے۔

اسکاٹ موریسن نے کہا تھا کہ ’انہیں لازمی طور پر فعال اور الرٹ رہنا چاہیے‘، انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ دیگر مسائل سے متعلق تبادلہ خیال کرنے کے لیے مسلم رہنماؤں کے ساتھ ایک گول میز اجلاس کریں گے۔

تاہم آسٹریلیا کے مفتی ابراہیم ابو محمد اور دیگر سینئر مسلمان رہنماؤں کے ایک گروہ نے ایک کھلے خط میں اسکاٹ موریسن کی دعوت کو مسترد کردیا۔

مزید پڑھیں: آسٹریلیا: چاقو بردار حملہ آور داعش سے ’متاثر‘ تھا، پولیس

انہوں نے کہا کہ وہ اسکاٹ موریسون اور دیگر وزار کے تبصرے پر ’شدید تشویش اور مایوسی‘ ہوئی، جن کا اندازہ ہے کہ مسلمان افراد مجموعی طور پر انفرادی شخص کے مجرمانہ عمل کے ذمہ دار ہیں اور انہیں ایسے واقعات سے بچنے کی مزید کوشش کرنی چاہیے‘۔

مسلمان رہنماؤں نے اپنے خط میں لکھا کہ ’ان بیانات سے بنیادی مسائل کے حل سے متعلق کچھ بھی نہیں، اس کے برعکس مسلمان برادری کے بڑے حصے کو نشانہ بنایا گیا ہے‘۔

آسٹریلیا میں مقیم مسلمان رہنماؤں کی جانب سے آسٹریلیا کے وزیراعظم کے نام مذکورہ کھلا خط مقامی میڈیا میں شائع کیا گیا۔

اس خط میں اسکاٹ موریسن کے ٹوئٹ بھی شامل ہیں، جسے مسلمان رہنماؤں کی جانب سے بائیکاٹ کی وجہ قرار دیا گیا کہ وہ (آسٹریلوی وزیراعظم) ان کی کمیونٹی کو غیر محفوظ کرتے ہوئے خطرات سے دوچار کررہے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’آسٹریلیا کو محفوظ بنانے کے لیے ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس چیز کو یقینی بنایا جائے کہ مسلمان طبقہ خطرناک نظریہ سے مزید متاثر نہیں ہوسکے۔

آسٹریلیا کی کئی ریاستوں میں کمیونٹی گروہوں کی صدارت کرنے والے مسلمان رہنماؤں نے اپنے خط کہا کہ ’وہ اسکاٹ موریسن کے ساتھ اجلاس میں اس صورت میں شرکت کریں گے اگر ان کے 'خیالات اور تحفظات کا احترام کیا جائے گا‘۔

خیال رہے کہ 9 نومبر کو میلبورن میں کیے گئے حملے میں صومالیہ سے تعلق رکھنے والے ایک پناہ گزین نے تیز دھار چاقو سے حملہ کرکے ایک شخص کو ہلاک جبکہ 2 افراد کو زخمی کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا: چاقو بردار کے حملے میں ایک شخص ہلاک، 2 زخمی

حملہ آور سے متعلق پولیس نے بتایا تھا کہ وہ دہشت گرد تنظیم 'داعش' سے متاثر تھا لیکن اس کا براہ راست تنظیم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

رواں ہفتے پولیس نے مزید 3 افراد کو میلبورن سے گرفتار کیا تھا جو شہر میں داعش سے متاثر ہو کر مبینہ حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔

اس حوالے سے حکام کا کہنا تھا کہ 2014 سے اب تک انہوں نے دہشت گردی کا 15واں حملہ ناکام بنایا۔

دہشت گردی کے حملے کے خطرات کے پیشِ نظر قدامت پسندوں کی جانب سے آسٹریلیا میں نافذ سخت امیگریشن قوانین کو مزید محدود کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جبکہ اس سے آسٹریلیا میں مقیم مسلمان برادری سے متعلق تحفظات میں بھی اضافہ ہوا۔