دنیا

سعودی عرب میں گرفتار رضاکاروں پر تشدد اور جنسی ہراساں کرنے کا الزام

گرفتار کیے جانے والے بیشتر رضاکاروں پر حکام نے ریاست مخالف مہم کا حصہ بننے اور دشمن ممالک سے تعلقات کا الزام لگایا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا ہے کہ سعودی عرب میں گرفتار ہونے والے رضاکاروں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، پر دوران تفتیش تشدد کیا گیا اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔

خیال رہے کہ سعودی عرب نے رواں سال قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت انسانی حقوق کے رضا کاروں کو گرفتار کیا تھا جن میں 10 خواتین اور 7 مرد شامل ہیں۔

سعودی حکام کی جانب سے گرفتار کیے جانے والوں میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو ریاست میں خواتین پر ڈرائیونگ سے متعلق پابندی کے خلاف احتجاج مہم کا حصہ تھیں، ان میں لجين الھذلول، ایمان النافجان اور عزیزہ الیوسف شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: انسانی حقوق کی 3 رضا کار خواتین رہا

الجریزہ کی رپورٹ میں ایمنسٹی کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان رضاکاروں کو مغربی بحیرہ احمر کے ساحل پر قائم دھاھبان کی جیل میں قید کیا گیا تھا، جنہیں وہاں الیکٹرک شاٹ لگائے گئے اور ان پر جسمانی تشدد کیا گیا جس کی وجہ سے ان میں سے بیشتر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور چلنے سے قاصر ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقومی گروپ نے الزام لگایا کہ ایک فرد کو چھت سے لٹکا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور خاتون کو تفتیش کے دوران جنسی طور پر ہراساں بھی کیا گیا، تحقیق کرنے والوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔

گرفتار کیے جانے والے بیشتر رضاکاروں پر حکام نے ریاست مخالف مہم کا حصہ بننے اور دشمن ممالک سے تعلقات کا الزام لگایا۔

واضح رہے کہ کچھ رضاکاروں کو رہا کردیا گیا تھا لیکن اب بھی عزیزہ الیوسف زیر حراست ہیں، جو ریاض میں قائم کنگ سعود یونیورسٹی کی سابق پروفیسر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی خواتین کارکنان قید

یاد رہے کہ بین الاقوامی گروپ کی یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جن دنیا بھر میں سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے صحافی جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں لرزہ خیز قتل کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

25 مئی 2018 کو سعودی عرب نے کریک ڈاؤن کے دوران حراست میں لی جانے والی انسانی حقوق کی 3 نمایاں خواتین رضاکاروں کو رہا کردیا تھا۔

واضح رہے سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دیئے جانے سے قبل اپریل میں شروع ہونے والے کریک ڈاون میں انسانی حقوق کے متعدد رضاکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے مزید 4 کارکن گرفتار

اس بارے میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی کی مشرق وسطیٰ سے متعلق مہم کی ڈائریکٹر سماح حدید نے بتایا کہ ہم تصدیق کرتے ہیں کہ عائشہ المنیٰ، حیسہ الشیخ اور مدیحہ الجروش کو رہا کیا جاچکا ہے تاہم اس کے پس پردہ وجوہات سے واقف نہیں۔

مئی 2018 میں سعودی عرب میں 3 بزرگ خواتین کے ساتھ دیگر 11 خواتین رضاکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا۔