دنیا

خاشقجی قتل: سعودی فرماں روا نے محمد بن سلمان کی حمایت کردی

ریاست انصاف کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی، ہمیں پبلک پراسیکیوشن کی موجودہ کوششوں پر فخر ہے، شاہ سلمان

سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد جاری حالیہ بحران سے متعلق اپنے پہلے عوامی بیان میں عدلیہ کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان کے ساتھ ہیں۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے پبلک پراسیکیوٹر نے ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان کو 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں ہونے والے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات سے بری قرار دیا تھا۔

تاہم سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ محمد بن سلمان نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے احکامات جاری کیے تھے۔

مزید پڑھیں : جمال خاشقجی کے قتل کی رپورٹ 2 روز میں جاری کریں گے، ٹرمپ

جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق پراسیکیوٹر نے 5 افراد کی سزائے موت کا مطالبہ کیا، 11 افراد کے خلاف مقدمے کا اعلان کیا اور کہا کہ مجموعی طور پر اس قتل میں 21 افراد میں ملوث تھے۔

82 سالہ سعودی فرماں روا نے شوریٰ کونسل کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ ریاست انصاف اور مساوات کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر قیام عمل میں آئی تھی اور ہمیں انصاف اور پبلک پراسیکیوشن کی موجودہ کوششوں پر فخر ہے‘۔

انہوں نے اپنی تقریر میں جمال خاشقجی کے قتل کا براہ راست حوالہ دیے بغیر کہا کہ ’ ہم اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ ملک میں اللہ کے قانون کو بغیر امتیاز کے نفاذ سے کبھی انحراف نہیں کریں گے‘۔

خیال رہے سعودی عرب کے شاہی نظام میں صرف بادشاہ کے پاس اختیار ہے کہ وہ ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان کو بے دخل کردے جنہیں جمال خاشقجی کے قتل پر شدید عالمی تنقید کا سامنا ہے لیکن انہوں نے بارہا یہ اشارہ دیا ہے کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔

العربیہ ٹیلی ویژن نے رپورٹ کیا کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پہلی مرتبہ محمد بن سلمان ارجنٹائن میں منعقد ہونے والے 20 ممالک کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

30 نومبر سے شروع ہونے والے دو روزہ اجلاس میں محمد بن سلمان ، ترکی ، امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے رہنماؤں سے براہِ راست ملاقات کریں گے۔

امریکا کی رائس یونیورسٹیز بیکز انسٹیٹیوٹ کے کرسٹین رچسن نے کہا کہ ’ ولی عہد محمد بن سلمان نے عالمی برادری کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے معاملے میں کچھ بھی کہیں یا کریں اس کا اثر سعودی عرب کے فیصلے پر نہیں ہوگا‘۔

یہ بھی پڑھیں : جمال خاشقجی کے قتل کی ’تکلیف دہ‘ آڈیو نہیں سننا چاہتا، ڈونلڈ ٹرمپ

خیال رہے کہ استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ترکی اور امریکا کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں، اس کے ساتھ ہی سعودی عرب کو عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی ہے۔

2 روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے ان کی انتظامیہ کی رپورٹ اگلے 2 روز میں جاری کی جائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سعودی ولی عہد کے حوالے سے اب تک ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ ان کا کوئی کردار نہیں تھا تاہم اصل بات کی کھوج لگا رہے ہیں۔

علاوہ ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگ پر مکمل بریف کیا گیا تھا لیکن وہ خود اس ٹیپ کو نہیں سننا چاہتے۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں : ’جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر ہوا‘

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔