کراچی جو اِک شہر تھا (آٹھواں حصہ)
یہ اس سیریز کا آٹھواں بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا اور ساتواں حصہ پڑھیں۔
80ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی نشریات اپنے عروج پر تھی۔ پی ٹی وی نے اس عشرے میں اپنی تاریخ کے سب سے معروف اور مقبول ڈرامے اور پروگرام پیش کیے۔ ہمیں سب سے زیادہ کراچی اسٹوڈیوز کے ڈرامے پسند ہوا کرتے تھے اور اس کے بعد لاہور اسٹوڈیوز کے۔ اس زمانے میں ٹی وی کے تقریباً سارے اداکاروں کو لوگ اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے اور ان کا بالکل اسی محبت کے ساتھ ذکر کرتے جیسی محبت اپنے کسی رشتہ دار کے بارے میں بات کرتے ہوئے لہجے میں جھلکتی ہے۔
محمود علی، قاضی واجد، شکیل، بہروز سبزواری، عظمیٰ گیلانی، ظہور احمد، راحت کاظمی، ساحرہ کاظمی، روحی بانو، سبحانی بایونس، فردوس جمال، عابد علی، محبوب عالم، جمیل فخری، فاروق ضمیر، رضوان واسطی، طاہرہ واسطی، قربان جیلانی، نور محمد لاشاری، شفیع محمد شاہ، توقیر ناصر، سکینہ سموں، خالدہ ریاست، ماہ نور بلوچ، بشریٰ انصاری، سلیم ناصر، عرفان کھوسٹ، قوی، عرشِ منیر، جمشید انصاری، ماجد جہانگیر، اسمعٰیل تارا، خیام سرحدی، لطیف کپاڈیا، معین اختر۔۔۔ یہ سب کون تھے؟ یہ سب ہمارے عزیز ہی تو تھے۔
فاطمہ ثریا بجیا کے ڈرامے ’افشاں‘ اور ’اَنا‘، منو بھائی کا ’سونا چاندی‘، حسینہ معین کے ڈرامے ’اَن کہی‘،’تنہائیاں‘ اور ’دھوپ کنارے‘، امجد اسلام امجد کے ڈرامے ’وارث‘، ’سمندر‘ اور ’وقت‘، نسیم حجازی کا ’شاہین‘، سلیم احمد کا ’تعبیر‘، عبدالقادر جونیجو کا ’دیواریں‘، نورالہدیٰ شاہ کے ڈرامے ’جنگل‘ اور ’آسمان تک دیوار‘، انور مقصود کا ’آنگن ٹیڑھا‘، یونس جاوید کا ’اندھیرا اُجالا‘، اطہر شاہ خان کا ’باادب، با ملاحظہ، ہوشیار‘، شوکت صدیقی کا ’جانگلوس‘۔۔۔ اور ان جیسے کئی شاہکار سلسلے اس زمانے میں پیش کیے گئے۔ یہ ڈرامے رات 8 بجے سے 9 بجے تک دکھائے جاتے تھے۔