کیا پاکستانی میڈیا اپنی قبر خود کھود رہا ہے؟

پاکستان میں مرکزی دھارے کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جس بحران میں گھرا ہوا ہے وہ اب شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
نامور شخصیات کے استعفوں اور برطرفیوں کی ایک لڑی کے بعد اب خبریں ہیں کہ کئی اشاعتیں جونیئر اسٹاف کو نکال رہی ہیں جبکہ کچھ کے بارے میں افواہیں ہیں کہ یہ مکمل طور پر بند ہو رہے ہیں۔ میڈیا کی صنعت میں کئی لوگوں کے لیے ایک مستقل خوف یعنی تنخواہوں کے اجرا میں تاخیر گزشتہ چند ماہ سے اب مزید بڑھتی جارہی ہے۔
اس زوال کے پیچھے کئی وجوہات ہیں اور مختلف جگہوں پر ان پر تفصیل سے بات ہوچکی ہے۔ ریاستی سنسرشپ کے خدشات، حکومت کی جانب سے اشتہارات کا منتخب اجرا اور میڈیا مالکان کے خراب کاروباری رویوں نے مل کر اس بحران میں کردار ادا کیا ہے۔
دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں مقامی صارفین کی مارکیٹ اور اس سے متعلقہ اشتہاری صنعت بظاہر اتنی بڑی نہیں کہ وہ کئی نجی میڈیا ہاؤسز کو سہارا دے سکے۔ چنانچہ حکومتی اشتہارات سے ریونیو اور میڈیا مالکان کے دیگر کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم اس مالیاتی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔
پاکستان کے معاملے میں مسئلہ اس لیے بھی شدید ہے کیونکہ یہاں ٹی وی نیوز کے شعبے میں بہت زیادہ کھلاڑی ہیں جن میں سے کافی کا اس شعبے میں آنے کا فیصلہ ممکنہ طور پر میڈیا سے متعلق ارادوں کے سبب نہیں تھا۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا میڈیا مارکیٹ چوٹی کے اور گنے چنے چینلز/اخباروں میں تنخواہوں کے معقول تر اسٹرکچر کی صورت میں مختصر مدت میں خود کو درست کر پاتی ہے یا پھر یہ کہ اس بحران سے مزید 'ریگولیٹڈ' (اور دباؤ کا شکار) میڈیا جنم لے گا۔ دونوں ہی صورتوں میں ان رجحانات سے خبروں اور معلومات کے مستقبل اور عمومی طور پر ثقافتی پراڈکشن اور اس کی عوام میں طلب کے حوالے سے بڑے سوالات جنم لیتے ہیں۔
دیگر تمام بحثوں کی طرح اس بحث کا بھی ابتدائی نکتہ پاکستان کی آبادی کے بارے میں حقائق (ڈیموگرافکس) اور اس کے 2 بنیادی ستونوں پر ہے: نوجوان آبادی کا حجم اور شہروں کی جانب منتقلی۔
پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے (29 فیصد آبادی 15 سے 29 سال عمر کی ہے) اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے اور یہی آبادی واقعتاً ملک کا مستقبل ہے۔
مگر اس میں بھی کچھ شرائط ہیں۔ تمام شہری علاقے ایک جیسے نہیں ہیں اور لسانی و طبقاتی فرق کا مختلف ثقافتی پہلوؤں سے تعلق تو ہے مگر مجموعی طور پر کئی حالیہ تحقیقات (مثلاً یو این ڈی پی کی نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ) نے دکھایا ہے کہ پاکستان بھر کے نوجوان ایک جیسے ہی خواب، ایک جیسی ہی امیدیں اور ایک جیسی ہی بے چینیاں رکھتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @umairjav