لہٰذا، تیاری کا فقدان۔
جبکہ دوسرا حصہ اقتدار میں وزرات عظمیٰ کے عہدے پر 90 دنوں میں ایڈجسٹ ہونے کے بارے میں رہا ہے۔ اپنے 90 دنوں میں کیا کرسکتے ہیں اور 90 دنوں میں کچھ حاصل کرنے کے مقصد کو ظاہر کیسے کرنا ہے، دونوں جگہوں پر تیاری کا فقدان ہے۔
وعدہ کی گئی اور ڈلیور کی گئی چیزوں کے درمیان ہمیشہ فرق زیادہ ہوتا ہے، اور سیاست میں تو ہوتا ہی ایسے ہے۔ لیکن جو ارادہ کیا گیا اور جو ڈلیور کیا ان دونوں کے درمیان فرق اکثر کم ہوتا ہے۔ اگر حقیقی اصلاحات کو ایجنڈا کا حصہ تصور کیا جائے تو ابتدائی 90 دن کی کارکردگی بہت خراب محسوس ہوتی ہے۔
اگر معنی خیز اصلاحات کو ہٹا کر، پی ٹی آئی کو بطور ’اسٹیٹس کو‘ کی اجازت دینے اور اسے جاری رکھنے والی جماعت کے طور پر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی نے کسی بھی نئی حکومت جیسی ناہموار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے علاوہ مرکز میں پہلی مرتبہ حکومت کرنے والی جماعت کی حیثیت نے اسے مزید لاچار بنا دیا ہے۔
یاد کریں کہ غیر جانبدار حلقے پی ٹی آئی کی حکومت سے اس کے ابتدائی 90 دنوں میں کیا معقول توقعات وابستہ کرسکتے تھے؟
اقتصادی بحران بھی ان دنوں میں شامل تھا۔ پی ٹی آئی کو 2 آپشنز میں سے کسی ایک کو چننا تھا کہ آیا وہ خود کو اہل دکھاتے ہوئے جزوی طور پر ہمیں بحران سے نکال دیتی یا پھر ٹھوکریں کھاتے ہوئے اپنے راستے پر چلتی رہتی یہاں تک کہ بحران کم ہوجاتا۔ فرق صرف اور صرف نکتہ نظر کا ہے۔
اور سڑکوں پر اسے جو مار پڑی، وہ، ہاں بہت ہی بُری تھی، مگر جس طرح عمران نے ابتدا میں دلیری کا دکھاوا کیا تھا اس کی وجہ سے یہ مار بُری نہیں بلکہ بدترین دکھائی دیتی ہے۔ دوسروں نے شاید دلیری کا یہ مظاہرہ نہ کیا ہوتا اور نتیجہ پھر بھی وہی نکلتا۔
سڑکوں پر مار پڑنا درحقیقت واقعات کا پے در پے غالب آنا تھا اور پھر فائر فائٹنگ موڈ اپنالیا گیا، لیکن اتنی جلدی نہیں کہ جس پر حیرانی ہو۔
تو ہاں، عمران اور پی ٹی آئی کے لیے معاملات اچھے دکھائی نہیں دیتے لیکن یہ اچھے نہیں تو کتنے بُرے ہیں؟ کوئی ایسا شخص جو انتہائی جوشیلا جانبدار نہ ہو، اس کے لیے پی ٹی آئی کی کارکردگی تقریباً وہی ہے جس کی 90 دن قبل اس سے توقع وابستہ کی جاسکتی تھی۔
اور اب تو 90 دن بھی گزر چکے ہیں، لہٰذا پی ٹی آئی کے پاس ڈلیور کرنے کے لیے 2 سال کا طویل وقت ہے اور یہی وقت دوبارہ منتخب ہونے کے تناظر میں اہم ہے، اور دوبارہ منتخب ہونا ہی واحد حقیقی سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔
انگلش میں پڑھیں
یہ مضمون 18 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔