پاکستان میں تجاوزات کی اجازت صرف امیروں کو ہے
جب کراچی کے تاریخی ایمپریس مارکیٹ میں ایک بڑے کلیئر اپ آپریشن کی تصاویر ہماری ٹی وی اسکرینز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آئیں تو کافی روایتی قسم کے ردِ عمل سامنے آئے۔
سب سے زیادہ شدید ردِ عمل تو 'قانون کی بالادستی' کی فتح کا دعویٰ اور عوامی مقامات کو تجاوزات سے محفوظ رکھنے کے عزم کا اظہار تھا۔
اور یہ لاپرواہ رویہ عموماً 'مہذب' طبقوں کی جانب سے آتا ہے اور اس سے گہری طبقاتی تفریق کی عکاسی ہوتی ہے جو اس اصول کا مذاق بنا دیتی ہے کہ قانون کے سامنے سب شہری برابر ہیں۔
معاشرے کے نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے 'متجاوز' افراد جن میں چھوٹے دکاندار مگر اس سے بھی زیادہ نمایاں طور پر کروڑوں غریب گھرانے شامل ہیں، عوامی مقامات پر قبضہ صرف ریاستی اہلکاروں کی مدد سے ہی کر پاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو ریاستی عہدیداران (اور چھوٹے لینڈ ڈیلر) ان 'متجاوز' افراد سے عوامی زمین پر قبضے کے بدلے میں باقاعدگی سے پیسہ وصول کرتے ہیں جو کہ واضح طور پر بات کریں تو غیر قانونی ہے۔
واقعتاً اس طرح کے آپریشنز کے دوران کوئی بھی اس حوالے سے فکرمند نظر نہیں آتا کہ دربدر ہو چکے دکاندار اور کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگ کہاں جائیں گے۔ کیونکہ بہرحال ان کی زندگی اور رہنے کی ضروریات اپنی جگہ ہوتی ہیں اور ان کا شہر کے اندر دوبارہ کسی جگہ مقیم ہوجانا ناگزیر ہوتا ہے۔ شہر کو بھی بدلے میں ایسے کئی کاموں کے لیے مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے جو شہری ماحول کا کوئی دوسرا طبقہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
لیکن حقیقت میں اس طرح کے ایڈ ہاک آپریشن ہمارے منصوبہ بندی و ترقیاتی نظام میں غریبوں کے خلاف طویل عرصے اور مستقل مزاجی سے موجود تعصب کو مزید مضبوط کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہمارے نظام، بالخصوص ہمارے شہروں میں موجود بنیادی بحران مزید گھمبیر ہوجاتے ہیں۔ محروم لوگوں کی آبادی بہرحال بڑھ رہی ہے جبکہ ہماری پالیسیاں اور ہمارے اقدامات بتدریج اس آبادی کی ضروریات پوری کرنے سے کترا رہی ہیں۔
یہ بدصورت حقیقت مکمل طور پر صرف تب سمجھی جا سکتی ہے جب ہم امیروں اور طاقتوروں کی تجاوزات کے بارے میں قانون کی سب سے شرمناک خلاف ورزیوں کا اعتراف کریں۔ مثال کے طور پر موجودہ وزیرِ اعظم کے بنی گالہ میں گھر کو دیکھیں: سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کو اٹھایا ہے مگر اس نے وزیرِ اعظم سے صرف پراپرٹی ریگولرائز کرنے کی ادائیگی کرنے کا کہہ کر ریلیف فراہم کر دیا ہے۔ اسی طرح کے دوسرے کیسز میں کوئی بھی حکام تجاوزات، یا زمین کے غیر قانونی حصول، خاص طور پر وہ جو بڑے پراپرٹی ڈیلرز نے ہتھیائی ہو کے خلاف نوٹس تک لینا گوارہ نہیں کرتے۔
مختصراً غریبوں کو سرکاری زمین کے چھوٹے پلاٹس پر رہنے کی سزا دی جاتی ہے جبکہ امیروں کی غیر قانونی حرکات سے ہمیشہ صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع آئے ہیں جب حکومتوں نے کچی آبادیوں کو ریگولرائز کرنے یا پھر چھوٹے دکانداروں اور خوانچہ فروشوں کو باقاعدہ لائسنس جاری کرنے کے وعدے کیے ہیں۔ مگر ان وعدوں پر کبھی بھی مکمل طور پر عمل نہیں کیا جاتا اور اس دوران ہمارے منصوبہ بندی کے نظام میں موجود غریب مخالف تعصب زیادہ سخت ہوتا جاتا ہے جبکہ امیر اپنی مرضی کے مطابق تجاوزات قائم کرنا جاری رکھتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔