یہ ان کا ہی عزم تھا کہ وہ بڑی مالیاتی قیمت ادا کر کے بھی برین واش ہو چکے اس نوجوان کو افغانستان میں پاکستان طالبان سے واپس حاصل کر کے گھر لائے اور اس کے بعد انہوں نے اسے اعتدال پسند بنانے کے لیے زبردست مالی اخراجات بھی برداشت کیے۔ ان کے لیے اچھا یہ رہا کہ کوشش کامیاب رہی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طاہر داوڑ خیبر پختونخوا پولیس کے ان چند گنے چنے افسران میں سے تھے جنہوں نے ایسے صوبے میں عسکریت پسند دولتِ اسلامیہ گروہ کا نیٹ ورک توڑا جہاں اس حوالے سے حقیقی خوف تھا کہ اس کے جنون کی حد تک سخت گیر نظریات نوجوان آبادی میں قبولیت حاصل کر لیں گے، خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کامیابیوں کے بعد۔
ان پر 2 مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے اور ایک خودکش دھماکے میں وہ شدید زخمی ہوئے مگر پھر بھی انہوں نے اپنی لڑائی جاری رکھی اور ٹی ٹی پی اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف ڈٹے رہے کیونکہ وہ خود شمالی وزیرستان سے تعلق رکھتے تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ معاشرے کے لیے انتہاپسندی کیا معنیٰ رکھتی ہے اور کس طرح زندگیاں برباد کر سکتی ہے۔
چنانچہ یہ بات حیران کن ہے کہ نہ ٹی ٹی پی خراسان (جیسا کہ ابتدائی چند رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا) اور نہ ہی دولتِ اسلامیہ نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے حالانکہ وہ ایسے شخص تھے جو ان دونوں کے لیے ہدف ضرور رہے ہوں گے۔
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ویڈیوز موجود ہیں جن میں طاہر داوڑ کہہ رہے ہیں کہ دشمن غیر ملکی قوتیں پاکستان، خاص طور پر خیبر پختونخوا کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں کیونکہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو اپنے کامیاب انجام تک پہنچتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔ ایک دوسرے انٹرویو میں وہ صوبے میں پولیس اور ملٹری انٹیلیجنس اداروں کے درمیان بہترین رابطہ کاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مگر اسی دوران ان کے جنازے میں ریاست کے خلاف غصہ جگا دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے بھلے ہی چند نیم سرکاری اکاؤنٹس ان نعروں کو غیر ملکی قوتوں کی ایما پر کام کر رہے لوگوں کے پاکستان مخالف ایجنڈا کا ثبوت قرار دیتے رہے۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ کی صفِ اول میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کے اس بہادر بیٹے کے لیے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنے لوگوں کے اُس درد سے خود کو الگ کر لیں جسے پشتون تحفظ موومنٹ بیان کرتی ہے، اور یوں وہ اس تحریک کے کھلے عام حامی رہے۔
یہ پریشان کن حد تک تنگ نظری اور تنگ دلی ہوگی کہ (دہائی تک ٹی ٹی پی کے ظلم کا نشانہ بننے کے بعد) اپنے لوگوں کے دکھ درد — جس کا تعلق موجودہ سیکیورٹی پالیسی میں موجود عناصر سے ہے — کے لیے طاہر داوڑ کی حمایت کو جائز تشویش نہ سمجھا جائے۔
پشاور میں مقیم ایک تجزیہ نگار دوست نے مجھے بتایا کہ وہ موجودہ حالات پر شدید ڈپریشن کا شکار تھے۔ " ۔۔۔۔ لوگ (ریاستی بے حسی) پر شدید غم و غصے میں مبتلا ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ (حکام) اس آگ پر کیسے پانی ڈالیں گے۔ لوگوں کو اس حد تک لے جایا جا رہا ہے کہ جہاں لوگوں کو ریاست کی نااہلی پر تنقید کرنے اور اپنے ہی لوگوں کے حقوق کا دفاع اور جواز پیش کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ دونوں ایک ساتھ نہیں کیے جا سکتے۔"
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔