چیئرمین نیب نے سیف سٹی پروجیکٹ کی تفصیلات طلب کرلیں
قومی احتساب بیورو (نیب) نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ’سیف سٹی پروجیکٹ ‘ کے تحت نصب 18 سو کلوز سرکٹ کیمروں میں سے 6 سو کیمروں کے ناکارہ ہونے کی شکایات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب نے یہ نوٹس اسلام آباد سے خیبرپختونخوا کے پولیس افسر طاہر خان داوڑ کے اغوا کے بعد سامنے آنے والے انکشافات کی روشنی میں لیا۔
نیب کے میڈیا سیل کے مطابق چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ادارے کو مذکورہ شکایات کی تصدیق کرنے کے احکامات دیے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کےنصف سی سی ٹی وی کیمرےخراب
اس حوالے سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’ناکارہ سرویلنس کیمروں کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین نے نیب راولپنڈی کے ڈائریکٹر جنرل کو منصوبے کے آغاز ، اس پر آنے والے اخراجات اور کیمروں کے غیر فعال ہونے کی وجوہات پر مبنی تفصیلی رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا‘۔
چیئرمین نیب نے ڈائریکٹر جنرل کو منصوبہ ناکام ہونے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا بھی حکم دیا۔
قبل ازیں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ 18 سو سی سی ٹی وی میں سے 9 سو ناکارہ ہیں اور جو کام کررہے ہیں وہ اس قابل بھی نہیں کہ لوگوں کے چہرے شناخت کرسکیں جبکہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹ بھی نہیں پڑھ سکتے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں ’سیف سٹی پروجیکٹ‘ نامی منصوبے کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دورِ حکومت میں سنہ 2008 میں کیا گیا تھا جو پاکستان مسلم لیگ (ن) میں بھی جاری رہا تھا۔
مزید پڑھیں: حکومت کا قصور میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ
اس منصوبے کے تحت سی سی ٹی وی کمیرے لگانے کے ساتھ ساتھ ٹرک پر نصب 3 اسکینرز کو بھی چین سے درآمد کیا گیا تھا جنہیں اسلام آباد کے داخلی راستے پر لگایا گیا۔
اس منصوبے کے تحت پورے شہر میں ایک ہزار 8 سو 40 کیمرے نصب کیے گئے تھے اور منصوبے کا افتتاح 2016 میں کیا گیا تھا اس کے بعد سے ہی بہت سے کیمروں میں خرابی سامنے آئیں اور 6 سو سے زائد کیمرے ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔
اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ زیادہ تر کیمروں کے غیر فعال ہونے کی وجہ ان کی تاروں کو کاٹ دیا جانا تھا جبکہ ٹرنول اور کشمیر ہائی وے سمیت متعدد ہائی ویز اور بارہ کہو میں تعمیراتی کام کے دوران 2 سو 36 کیمرے کی تاریں خراب ہوگئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور کیلئے 1800 سی سی ٹی وی کیمرے
ان میں سے متعدد کیمروں کو کنٹرول روم میں کوئی آپریٹر کنٹرول نہیں کرتا جبکہ بہت سے کیمرے رخ بدلنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور وہ ایک ہی سمت کا منظر دکھاتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس منصوبے کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں جرائم ، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی بیخ کنی کرنا تھا، اس حوالے سے اسلام آباد پولیس نے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو ان کیمروں کی مرمت کے لیے ٹینڈر جاری کرنے کی درخواست بھی ارسال کی تھی۔