تجاوزات کے خلاف آپریشن کا نشانہ صرف غریب ہی کیوں؟


ہمیں شہروں کے بارے میں ویسے ہی سوچنا اچھا لگتا ہے جیسے کہ ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں، یعنی صاف ستھرے اور ہم آہنگ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے شہر پرفیکٹ ہونے سے بہت دُور ہیں۔ وہ خود بخود بڑھتے رہے ہیں اور اس دوران باقاعدہ منصوبہ بندی نے صرف متوسط اور بالائی طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔
ہماری ریاست کو صلاحیتوں کی محدودیت کا سامنا ہے، دولت کے مفادات یہاں مضبوط ہیں اور ہم نے بتدریج عوامی فلاح اور خدمات کی فراہمی میں عوام کے کردار کو کم کر دیا ہے اور یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ مفادات کا تحفظ کرنے والے نظامِ حکمرانی نیو لبرل ازم کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
یہ اقتصادی سیاسی تناظر لازماً ایک ایسے چکر کی بنیاد رکھتا ہے جس میں لوگوں کو ان کی جائیداد سے محروم کرکے جائیداد ہتھیائی جاتی ہے، جس کا ثبوت دنیا بھر میں عام طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ مکانات خریدنا غریبوں کی دسترس سے دُور ہوچکا ہے تو وہ بے قاعدہ بستیوں میں رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ چونکہ انہیں کمرشل جگہوں سے نکال دیا جاتا ہے اس لیے وہ بے قاعدہ کاروبار شروع کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگ جو خود کاروبار شروع نہیں کرسکتے، وہ غیر رسمی طور پر دوسروں کے لیے کام کرنے لگتے ہیں جس میں اشرافیہ کے لیے گھریلو ملازم بننا، یا پھر کنسٹرکشن و مینوفیکچرنگ جیسے رسمی و نیم رسمی شعبوں میں کام کرنا شامل ہے۔ اس سے سرکاری و نجی شعبے میں شہری بے ضابطگی پیدا ہوتی ہے جس کا دستاویزات میں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔
بحث میں تبدیلی تب ممکن ہے جب ہم عدم رسمیت کی تعریف دوبارہ متعین کریں۔ صرف تبھی ہم غیر رسمی سرگرمیوں کو 'تجاوزات' یا 'غیر قانونی' کہنے کے بجائے اسے پاکستان کے کروڑوں غریب شہریوں کے لیے زندہ رہنے کے واحد راستے کے طور پر دیکھیں گے۔
عوامی مقامات پر تجارت یا رہائش کے لیے قبضہ کرنا ایک مزاحمتی قدم ہے۔ یہ غریبوں کے لیے اپنے سامنے موجود حدود و قیود میں رہتے ہوئے زندہ رہنے کی ایک کوشش ہے۔ کئی طرح سے دیکھیں تو جس زمین پر ان کا 'غیر قانونی' قبضہ ہوتا ہے، وہ ان قابضین کا واحد اور انتہائی ضروری اثاثہ ہوتا ہے۔ بائیں بازو کے ماہرینِ عمرانیات اسے survival by repossession یا زندہ رہنے کے لیے (زمین کا) حصول کہتے ہیں۔
کیونکہ بہرحال کیا ٹیکس اکھٹا کرنے مگر جمع نہ کروانے والے پوش ریسٹورینٹ میں اور سڑک پر غیر دستاویزی انداز میں کاروبار کرنے والے چھوٹے سبزی فروش میں کوئی فرق نہیں؟ کیا کے ایم سی کی زمین پر کاروبار کرنے والے کا اتنی غیر قانونی دولت اکھٹی کرلینے کا امکان تھا جتنی کہ ان قانون سازوں کے پاس ہے جو صفر ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر مہنگی، تحفے کے طور پر حاصل گاریوں میں گھومتے ہیں؟ کیا وہ وفاقی وزرا جن کی جائیدادیں آس پاس موجود سرکاری زمین پر بھی قبضہ کر لیتی ہیں، یا پھر وہ لگژری ہوٹل جنہوں نے پارکنگ کے لیے عوامی مقامات کو باڑ لگا کر ہتھیا لیا ہے، یا وہ ریاستی ادارے جنہوں نے سیکیورٹی کے نام پر پوری پوری سڑکیں بند کر رکھی ہیں، ان کی وہی ذمہ داری ہے جو سرکاری زمین پر قائم ایک جھونپڑی میں رہ رہے شخص کی ہے؟