پاکستان

ایس پی طاہر خان داوڑ کا اغوا، قتل: وزیراعظم کا معاملے کی تحقیقات کا حکم

وزیر مملکت برائے داخلہ کو اس معاملے کو فوری دیکھنے کو کہا ہے، وہ اس کی رپورٹ جلد مجھے پیش کریں گے، وزیراعظم عمران خان
|

وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد سے اغوا ہونے والے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر خان داوڑ کی لاش افغانستان سے ملنے کے معاملے پر خیبرپختونخوا حکومت اور اسلام آباد پولیس کو فوری طور پر مشترکہ تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا۔

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طاہر خان داوڑ کو رواں برس کے آغاز میں دیہی علاقوں کا ایس پی بنایا گیا تھا اس سے قبل وہ یونیورسٹی ٹاؤن اور فقیر آباد میں بحیثیت ڈی ایس پی اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔

یاد رہے کہ وہ 26 اکتوبر کو ہی پشاور سے اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہیں اسی روز اغوا کرلیا گیا تھا، ان کے اہلِ خانہ نے اسلام آباد پولیس کو بتایا تھا کہ ان کا فون شام پونے 7 بجے سے بند جارہا تھا۔

مزید پڑھیں: 'ایس پی طاہر خان داوڑ کی لاش براستہ طورخم پاکستان منتقل کی جائے گی'

یہ بات بھی مد نظر رہے کہ ایس پی اس سے قبل بنوں میں تعیناتی کے دوران 2 خود کش حملوں کا سامنا کرچکے تھے جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ایس پی طاہر خان داوڑ کے قتل کا معاملہ دیکھ رہے ہیں اور کے پی حکومت کو اسلام آباد پولیس کے ساتھ مل کر اس معاملے پر فوری انکوئری کا حکم دے دیا ہے۔

ان کا مذکورہ ٹوئٹ میں مزید کہنا تھا کہ 'وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کو اس معاملے کو فوری دیکھنے کے لیے کہا گیا ہے اور وہ اس کی رپورٹ جلد مجھے پیش کریں گے'۔

ایس پی کا واقعہ پولیس کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے، وزیر مملکت برائے داخلہ

ادھر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے سینیٹ کے اجلاس کے دوران بتایا کہ ایس پی طاہر خان داوڑ پاکستان کا غیرت مند بیٹا تھا اور ان سے قبل ان کے بھائی اور بھابی کو بھی شہید کیا گیا، ایس پی دہشت گردوں کے نشانے پر تھے۔

انہوں نے سینیٹ اراکین کو بتایا کہ آخری پیغام گھر والوں کو ملا کہ ایس پی طاہر داوڑ محفوظ ہیں، ایس پی طاہر خان داوڑ کو پنجاب میں میاں والی کے راستے بنوں اور پھر افغانستان لے جایا گیا۔

وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ 28اکتوبرکو ایس پی طاہر داوڑ کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کی گئی، یہ واقعہ پولیس کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بھی ایس پی کے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

وزیر مملکت برائے داخلہ نے سابقہ دور حکومت کے سیف سٹی منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کہاں ہے؟ سابقہ حکومت جواب دے، سیف سٹی کے ایک ہزار 8 سو سے زائد کیمرے ناکارہ ہیں، سیف سٹی میں لگائے گئے کیمروں کی انکوائری ہونی چاہیے۔

ایس پی کی لاش پاکستان منتقل کی جارہی ہے، ترجمان افغان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی

علاوہ ازیں افغان حکومت نے ایس پی طاہر خان داوڑ کی لاش، پوسٹ مارٹم اور ضروری کارروائی کے بعد افغان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے حوالے کردی۔

بعد ازاں افغان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے ترجمان نے ڈان نیوز کو بتایا کہ 'افغان حکام نے لاش ہمارے حوالے کردی ہے اسے پاکستان منتقل کرنے کے لیے پاک افغان سرحد پر منتقل کیا جارہا ہے'۔

اس سے قبل پاکستانی وزارت خارجہ نے گزشتہ ماہ لاپتہ ہونے والے خیبرپختونخوا (کے پی) کے ایس پی طاہر خان داوڑ کی لاش افغانستان سے برآمد ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی لاش کو قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد براستہ طورخم پاکستان پہنچایا جائے گا۔

وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق افغان وزارت خارجہ نے ایس پی طاہر خان داوڑ کی لاش سروس کارڈ کے ساتھ ملنے کی تصدیق کرکے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کو آگاہ کردیا۔

اعلامیے کے مطابق طاہر خان کی لاش افغان صوبے ننگرہار کے ضلع دربابا میں مقامی رہائشیوں کو ایک روز قبل ملی تھی۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر خان داوڑ کی لاش انٹر نینشل ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ موومنٹ کی جانب سے جلد پاکستانی حکام کے حوالے کردی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ایس پی طاہر داوڑ کے حوالے سے سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی، فواد چوہدری

واضح رہے کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر خان داوڑ، جو پشاور پولیس کے دیہی سرکل کے سربراہ تھے، کو 26 اکتوبر کو اسلام آباد کے علاقے جی-10 سے اغوا کیا گیا تھا، جن کی مبینہ لاش افغانستان کے صوبے ننگرہار سے ملی ہے۔

اس سے قبل ڈان اخبار کی رپورٹ میں حکام کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ایس پی کی مبینہ تشدد زدہ لاش کے ساتھ پشتو میں لکھے گئے خط کی تصاویر بھی وائرل ہوگئی تھیں تاہم سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمیں اس افسوسناک واقعے کی اطلاع ’ذرائع‘ سے موصول ہوئی تاہم خیبر پختونخوا پولیس نے اس واقعے کی تصدیق کرنے سے انکار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پولیس افسر کو کس مقام پر قتل کیا گیا اور کون سا گروہ اس کا ذمہ دار ہے، اس بارے میں تحقیقات کی جائیں گی جبکہ لاش کے ساتھ ملنے والے خط میں کسی بھی تنظیم کا نام نہیں تھا، اسے بھی تحقیقات کا حصہ بنایا جائے گا۔

دوسری جانب ایس پی کے افسر کے بھائی احمد الدین نے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں سرکاری ذرائع سے ابھی تک تصدیق موصول نہیں ہوئی تاہم سوشل میڈیا میں تصاویر وائرل ہونے کے بعد تعزیت کرنے والوں کی کثیر تعداد ان کے گھر پہنچ گئی۔

یاد رہے کہ تصاویر میں نعش کے ساتھ ملنے والے خط میں پشتو زبان میں ولایت خراسان کا نام لکھا ہے اور اس میں وہی رسم الخط استعمال کیا گیا ہے جو پاک افغان علاقے میں داعش استعمال کرتی ہے۔

خط میں ایس پی طاہر خان داوڑ کا نام لے کر لکھا گیا ہے کہ ’پولیس اہلکار جس نے متعدد عسکریت پسندوں کو گرفتار اور قتل کیا، اپنے انجام کو پہنچ گیا‘۔

اس کے ساتھ خط میں دوسرے افراد کو بھی محتاط رہنے کی دھمکی دیتے ہوئے تحریر ہے کہ بصورت دیگر ان کا بھی ایسا ہی انجام ہوگا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی مغوی پولیس افسر کے افغانستان میں قتل کی اطلاعات

علاوہ ازیں پاکستان میں افغان سفیر عمر ذاخیل وال نے پشاور میں الوداعی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ایس پی طاہر خان داوڑ کے بارے میں اتنی ہی معلومات میرے پاس ہیں جتنی آپ کے پاس ہیں، دونوں ممالک آپس میں بیٹھ کر بات کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیسے یہاں اسلام آباد میں پولیس افسر اغوا ہوا اور افغانستان پہنچا اور مردہ حالت میں پایا گیا۔

دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے افغان سفیر کا کہنا تھا کہ صلح کے علاوہ اور کوئی راستہ پاکستان اور افغانستان کے پاس نہیں، ایس پی طاہر داوڑ کے معاملے میں دونوں ممالک کی قیادت کو بیٹھنا ہوگا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان حکومت نے ایس پی طاہر خان داوڑ سے متعلق کوئی رابطہ نہیں کیا تاہم اس معاملے پر انتہائی افسوس ہے۔