گل جی کی وہ صلاحیت جس نے ابتدا میں ہی انہیں بڑا مصور بنادیا
گل جی کی وہ صلاحیت جس نے ابتدا میں ہی انہیں بڑا مصور بنادیا
جب گل جی کے بارے میں لکھنے بیٹھا تو اچانک ایک عجیب سا خیال آیا، میں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ زندگی میں گل جی سے میرا پہلا تعارف کیا تھا؟ اور جو کچھ یاد آیا وہ حیرت انگیز تھا۔
ایم ایم شریف (معروف خطاط)، گل جی، زریں پنا (کلاسیکل رقاصہ)، مہاراج کتھک، صادقین، منصور ملنگی، فصیح الرحمن، عدنان سمیع خان، افشاں، آغا طالش، صبیحہ، سنتوش، محمد علی، زیبا اور کئی دوسرے ایسے آرٹسٹ تھے جن کا ذکر پہلی مرتبہ میں نے اپنی ماں سے سنا تھا۔ اب ماں نہ این سی اے کی گریجویٹ ہے، نہ پشاور میں کوئی ایسا خاص سوشل سرکل تھا جو امّی کو یہ سب کچھ سکھاتا کہ آرٹ کیا ہے اور کیا نہیں ہے، بس ایک دلچسپی تھی جو پیدائشی تھی اور وہ میری ماں کو بہت سی چیزوں میں تھی۔ جیسے فلم، موسیقی، گانے ہر چیز انہیں پسند تھی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں انہیں کبھی بہت زیادہ وقت ان چیزوں پر خرچ کرتے نہیں دیکھا۔ پھر کتاب نے ان سب چیزوں کی جگہ لے لی۔ خدا زندگی صحت دے اب بس ہماری شکلیں موبائل پر دیکھتی ہیں اور کتاب رسالے پڑھ لیتی ہیں۔
تو گل جی کا ذکر پہلی بار امّی سے ہی سنا تھا۔ بعض اوقات دماغ کے تماشے عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی تو 4 دن پہلے پڑھی کتاب کا نام تک یاد نہیں آ رہا ہوتا اور کبھی برسوں پرانا منظر بس آنکھیں بند کرنے پر ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ امّی نے کہا تھا، ’یہ دیکھو ذرا، گل جی آگیا، اس کا انٹرویو دیکھو، کیسے زور زور سے سانس لیتا ہے، دمہ ہے شاید، کتنا کمزور اور بوڑھا آدمی ہے، لیکن ابھی دیکھو جب اس کو تصویر بناتے دکھائیں گے تو کیسے پوری طاقت سے برش گھمائے گا اور ایک دم آدھی تصویر بنا دے گا‘۔ اس وقت شاید گل جی نے کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور وہ اپنے مخصوص اسٹروکس کی تیاری میں تھے کہ جن میں برش اس وقت کینوس سے اٹھاتے تھے جب پینٹ بالکل ختم ہونے والا ہوتا تھا۔