این ایف سی کے سلسلے میں صوبوں کی جانب سے تاخیر، وفاقی حکومت کو تشویش
اسلام آباد: متعدد درخواستوں کے باوجود صوبوں کی جانب سے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کی تکمیل کے لیے تاحال نامزدگیاں نہ بھیجنے پر وفاقی حکومت سخت اضطراب کا شکار ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے ہونے والی بات چیت کے پیشِ نظر این ایف سی کا معاملہ حل کرنا چاہتی ہے کیوں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں کے مالیاتی امور واضح کرنے ہوں گے۔
دوسری جانب سندھ ،بلوچستان اور پنجاب نے ابھی تک’نان اسٹیٹری‘ (تکنیکی ماہر) اراکین کو این ایف سی کے لیے نامزد نہیں کیا تاہم خیبر پختونخوا کی جانب سے مذکورہ نامزدگیاں کردی گئیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت این ایف سی ایوارڈ کی از سر نو تشکیل کیلئے فعال
31 اکتوبر کو ہونے والے ’فسکل کوآرڈینیشن کمیٹی‘ کے اجلاس میں ذاتی طور پر درخواست کرنے کے باوجود 3 صوبوں کی جانب سے نام نہ بھجوانے پر وزیر خزانہ اسد عمر نے مایوسی کا اظہار کیا جس کے بعد وفاقی وزارت خزانہ نے ایک مرتبہ پھر صوبائی سیکریٹریز خزانہ سے رابطہ کیا اور انہیں این ایف سی کے نان اسٹیٹری اراکین کے لیے فوری طور پر نام بھجوانے کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ مذکورہ اجلاس میں تمام صوبوں کے وزیر خزانہ اور سیکریٹریز خزانہ سمیت وزیراعلیٰ سندھ نے بھی شرکت کی تھی جن کے پاس صوبائی محکمہ خزانہ کا قلمدان بھی ہے۔
دوسری جانب حکومت کو درپیش مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مختلف ذرائع کے تحفظات کے باعث گزشتہ برس ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کا باضابطہ نوٹفکیشن ابھی تک جاری نہیں ہوسکا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان کی این ایف سی سے متعلق وفاق کے فیصلے کی مخالفت
جس کے باعث صوبوں کے لیے مختص این ایف سی ایوارڈ کی مقدار میں تبدیلی ہونے کے امکانات ہیں خاص طور پر خیبر پختونخوا کے لیے جہاں اب قبائلی علاقے بھی صوبے کا حصہ بن چکے ہیں۔
مردم شماری کے اعداد و شمار تسلیم کرنے کے سلسلے میں اعتراضات دور کرنے اور اتفاقِ رائے قائم کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل اجلاس بلانے کی ضرورت ہے کیوں کہ اتنے بڑے کام کو از سرِ نو سرانجام دینا ممکن نہیں۔
اس ضمن میں ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے صوبے این ایف سی کی تکمیل اس وجہ سے موخر کررہے ہوں کہ صوبوں کو دیے جانے والے وسائل کی تقسیم کو دوبارہ متوازن کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:18 ویں ترمیم: نگاہیں کہیں نشانہ کہیں
تاہم اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ وفاق اور چاروں صوبوں کی مشاورت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا اور آئین کے تحت نہ ہی کسی صوبے کے حصے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
خیال رہےکہ یہ فنانس کمیشن تمام نئے چہروں پر مشتمل ہوگا کیوں کہ وزیراعلیٰ سندھ کے علاوہ تمام صوبائی وزیر خزانہ پہلی مرتبہ اس عہدے پر تعینات ہوئے ہیں۔